اکادمی ادبیات کے زیراہتمام سچل سرمست کی شاعری اور پیغامِ محبت بارے سیمینار

بدھ 13 ستمبر 2017 18:18

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 ستمبر2017ء) تصوف اصل میں اسلام کی روح ہے، سچل نے اسی روح کا پرچار کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر عبد الغفار سومرو نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام شاعرِ ہفت زبان سچل سرمست کی شاعری اور پیغامِ محبت کے حوالے سے منعقدہ سیمینارمیں صدارت کرتے ہوئے کیا۔ اختر درگاہی، سیکرٹری ، بیدل یادگار کمیٹی نے کلیدی مقالہ پیش کیا۔

ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو، چیئرمین ، اکادمی ادبیات پاکستان، خطبہ استقبالیہ،سیمینار کا تعارف اور ’’سچل اور سندھی سماج کا مطالعہ ‘‘ کے عنوان سے پیش کیا۔پروفیسر فتح محمد، احمد سلیم،ڈاکٹر حاکم علی برڑو اورڈاکٹر منظور ویسریو نے اظہار خیال کیا۔ یہ سیمینار دوحصوں پر مشتمل تھا ، پہلے حصے میں سچل سرمست کی شاعری اور پیغام محبت کے حوالے سے مقالات پیش کیے گے اوردوسرے حصے میں اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام ماہ جولائی2017میں منعقد ہونے والی شاعری، فکشن اور ڈرامہ ورکشاپس کے شرکاء میں اسناد تقسیم کی گئیں۔

(جاری ہے)

آخر میں اختر درگاہی نے سچل کاکلا م ساز و آواز کے ساتھ پیش کیا۔ڈاکٹر عبد الغفار سومرو نے کہا کہ سندھ کی سرزمین توتصوف کے خمیر سے بنی ہے۔فارسی اور اردو کی قدیم شاعری میں بھی تصوف کا احساس ملتا ہے۔ امیر خسرو سے لے کرسچل تک تصوف کی روائت چلی آرہی ہے۔ہمیں سچل کی تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو، چیئرمین ، اکادمی ادبیات پاکستان نے کہا کہ سچل سرمست ؒنے انسان کی عظمت کو بنیادی اہمیت دی۔

وہ سماج کے نمائندہ شاعر تھے۔ سچل سرمستؒ کے موضوعات بہت متنوع ہے اور دائرہ اثر غیر معمولی حدتک وسیع اور روایتوں سے ہٹ کرہے ۔ انہوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خدمات سرانجام دیں۔ صوفی شعراء نے ہمیشہ اپنی شاعری کے ذریعے محبت، بھائی چارے اور اخوت کا پیغام دیا ہے۔ سچل سرمستؒ کی شاعری میں بھی یہ پیغام واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کا یہ مشن ہے کہ صوفیاء اکرام کے پیغام امن کے ذریعے قومی ہم آہنگی کی فضاہموار کی جائے جس کے لیے مختلف تقاریب، سیمینار زاور کانفرنسیں منعقد کی جارہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سچل سرمستؒ سچے، مضبوط،طاقتور اور باعزت سماج کا پتہ دیتے ہیں، اس پر عمل کر کے ہمارا معاشرہ وسیع انسانی برادری میں اپنی مخصوص تہذیب کی حفاظت اور بہتری کے لیے بہتر طور پر فرائض کی ادائیگی کر سکتا ہے۔پروفیسر فتح محمد ملک نے کہا کہ سچل سرمتؒ ان صوفیائے کرام میں سے ایک ہیں جنھوں نے علم و آگاہی کے چراغ روشن کیے اور انسانی بھائی چارہ، اخوت، محبت، امن و اتحاد کا پیغام دیا۔

سچل نے اپنے کلام کے ذریعے انسانی برادری، مساوات ، محبت و امن کا درس دیا ہے۔ اختر درگاہی نے کہا کہ سچل سرمست کافی حوالوں سے منفرد اور باکمال شاعر تھے وہ سندھ کے پہلے شاعر تھے جنہوں نے ایک سے زیادہ زبانوں میں شاعری کی اور شاعر ہفت زبان بھی مشہور ہوگئے۔ سچل سرمست سندھی، سرائیکی، اردو اور فارسی کے علاوہ ہندی اور عربی کے بھی عالم تھے اور انہوں نے اپنے کلام میں ان ساتوں زبانوں کے الفاظ استعمال کئے ہیں لیکن وہ بنیادی طور پر چار زبانوں سندھی، سرائیکی، اردو اور فارسی کے عظیم صوفی شاعر تھے۔

سچل سرمست نے سندھ میں سرائیکی شاعری کی مضبوط بنیاد رکھی۔ فارسی کے صاحب دیوان شاعر تھے جبکہ سندھی میں سچل سرمست نے شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے بعد شاعری کی نئی ریت اور اسلوب کو فروغ دیا اور بھٹائی کی وائی کی جگہ کافی کر لے کر آئے۔ احمد سلیم نے کہا کہ سچل اپنی شاعری کے ذریعے حقیقی انسان دوستی کو نمایاں کرتے رہے۔ڈاکٹر حاکم علی برڑونے کہا کہ سچل سرمست کی شاعری کا نقطہ محبت پر قائم ہے۔ڈاکٹر منظور ویسریو نے کہا کہ سچل نے سچ کی حقیقت کو پالیا تھااس لیے ان کی شاعری سچائی کا منبع ہے۔