چوکیدار کی بیٹی سنگاپور کی پہلی باحجاب مسلم خاتون صدر منتخب

الیکشن کمیشن نے حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والی حلیمہ یعقوب کو بلامقابلہ صدارتی انتخاب میں فاتح قرار دے دیا

بدھ 13 ستمبر 2017 15:00

سنگا پورسٹی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 ستمبر2017ء) سنگاپور میں پارلیمنٹ کی سابق اسپیکر حلیمہ یعقوب ملک کی پہلی باحجاب مسلمان خاتون صدر منتخب ہوگئیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق الیکشن کمیشن نے حکمراں جماعت پیپلز ایکشن پارٹی سے تعلق رکھنے والی 63 سالہ حلیمہ یعقوب کو بلامقابلہ صدارتی انتخاب میں فاتح قرار دے دیا کیونکہ ان کے مقابلے میں کوئی امیدوار موجود نہیں تھا۔

ملائی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی حلیمہ کے مقابلے میں 4 امیدوار کھڑے ہوئے تھے تاہم دو امیدوار صالح میریکان اور فرید خان کو الیکشن کمیشن نے اس لیے نااہل قرار دے دیا کہ وہ ’’چھوٹی کمپنیوں‘‘ کے مالک تھے جب کہ دیگر دو کو اس لیے نااہل کیا گیا کہ وہ ملائی نسل سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ سنگاپور میں قانون ہے کہ صدارتی امیدوار کی کمپنی کے حصص کی کم از کم مالیت 37 لاکھ ڈالر ہونی چاہیے۔

(جاری ہے)

اگرچہ خود حلیمہ یعقوب بھی اتنی امیر کمپنی کی مالک نہیں لیکن قانون کی رو سے اسپیکر پارلیمنٹ ہونے کی حیثیت سے انہیں اس اصول سے استثنیٰ حاصل تھا۔حلیمہ سنگاپور کی دوسری مسلمان صدر ہیں اور ان سے قبل یوسف اسحاق نے 1965 میں صدارت کا منصب سنبھالا تھا۔ انہوں نے سنگاپور کی پہلی خاتون صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔ حلیمہ نے 1978 میں سنگاپور یونی ورسٹی سے قانون میں گریجویشن کیا جبکہ ان کے شوہر بھی سنگاپور یونی ورسٹی سے سائنس کے شعبے میں فارغ التحصیل ہیں۔

حلیمہ کے والد بھارتی مسلمان تھے جنہوں نے ملائی خاتون سے شادی کی۔ حلیمہ کے والد پیشے کے اعتبار سے چوکیدار تھے جن کا انتقال اس وقت ہوا جب حلیمہ کی عمر 8 سال تھی جس کی بعد ان کی ماں نے تنہا ان کی پرورش کی۔خاتون صدر کے شوہر یمنی نڑاد ہیں جن کا نام محمد عبد الل? الحبشی ہے اور ان کے 5 بچے ہیں۔ یہ خاندان سنگاپور کے علاقے یشون میں 8 کمروں کے فلیٹ میں رہتا ہے اور حلیمہ نے صدر بننے کے بعد صدارتی محل میں رہنے کی بجائے اسی فلیٹ میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس بار سنگاپور حکومت نے صرف ملائی نسل سے تعلق رکنے والے شہری کو صدر بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور کسی اور نسل کا فرد صدر بننے کا حق دار نہیں تھا۔ سنگاپور میں صدر زیادہ اختیارات کا حامل نہیں ہوتا اور اس کا عہدہ بڑی حد تک رسمی ہی ہوتا ہے۔اس ملک میں چینی نسل سے تعلق رکھنے والے اکثریت میں ہیں اور ہمیشہ اسی نسل کا امیدوار وزیراعظم منتخب ہوتا ہے، اسی لیے اس بار ملائی اقلیت کے شخص کو صدر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔