پانامہ کیس فیصلہ،شریف خاندان کی نظر ثانی درخواست کی پہلی سماعت

Syed Fakhir Abbas سید فاخر عباس بدھ 13 ستمبر 2017 11:42

اسلام آباد(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار - 13ستمبر 2017ء): سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں پانامہ کیس فیصلے پر نظر ثانی درخواست پر پہلی سماعت کی۔تفصیلات کے مطابق شریف خاندان نے پانامہ کیس فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل دائر کی تھی جس پر عدالت نے اس اپیل کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں پانامہ کیس فیصلے پر نظر ثانی درخواست پر پہلی سماعت کی۔

اس موقع پر شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا تھا کہ درخواست گزار کو فئیر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔انہوں نے اعتراض کیا کہ جس پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا وہ بینچ ٹھیک نہیں بنا تھا۔جن دو ججز نے فیصلہ دے دیا تھا وہ دوبارہ عمل درآمد بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے تھے۔

(جاری ہے)

انکا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ کیا عدالت نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دے سکتی ہے اور مزید یہ کہ تحقیقات اور ٹرائل کے لیے مانیٹرنگ جج کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔

نگران جج کے ہوتے ہوئے فئیر ٹرائل کیسے ہو گا۔خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ تھا کہ اس سارے کیس میں نواز شریف کی نااہلیت نہیں بنتی تھی اور اس کیس میں درخواستگزار کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔20اپریل کے فیصلے میں لارجر بنچ کے فیصلے کرنے کا ذکر نہیں تھا۔اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ آزاد ہے اس پر کوئی دباؤ نہیں جو چاہے فیصلہ کرے۔

اس موقع پر جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ 20اپریل کے فیصلے میں لارجر بنچ نہ بننے کا بھی ذکر نہیں تھا۔ 20اپریل کی ججمنٹ کے مطابق نااہلی کا فیصلہ 5رکنی بنچ نے ہی کرنا تھا۔ ایک عملدرآمد بنچ تھا، بعد میں واپس 5رکنی بنچ بن جانا تھا۔ عملدرآمد بنچ نے 5 رکنی بنچ کی ہدایات پرچلنا تھا۔آپ عملدرآمد بنچ کو لارجربنچ کے ساتھ مکس کررہے ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھاکہ آپ فیصلہ لکھنےوالوں کویہ کہہ رہے ہیں ، آپ نے جو لکھا وہ نہیں کہنا چاہ رہے تھے۔

3رکنی بنچ نے ہی اپنا فیصلہ دیا ہے ۔ فیصلہ لکھنے والوں کو پتا ہے کہ انہوں نے کیا لکھا۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد معاملہ 3رکنی بنچ کے سامنے ہی آیا۔ رپورٹ آنے کے بعد عملدرآمد بنچ ختم ہوگیا تھا۔اس کے بعد سماعت میں وقفہ کر دیا گیا۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو خواجہ حارث اور ججز کے مابین نا اہلی کی مدت کے حوالے سے دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔

اس موقع پر نواز شریف نا اہلی کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے معزز جج صاحبان کا کہنا تھا کہ اکثریتی فیصلے میں مختلف وجوہات پر سابق وزیر اعظم،میاں محمد نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا۔میاں محمد نواز شریف کی نا اہلی 62ون ایف پر ہوئی۔اس پر شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے پوچھا کہ کیا 62ون ایف کے تحت نواز شریف کی نا اہلی تا حیات ہے ۔اس پر ججز نے کہا کہ فیصلے میں یہ کہا ں لکھا ہے کہ نا اہلی تا حیات ہے۔اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل کا خواجہ حارث سے کہنا تھا کہ تا حیات نا اہلی کے لیے ہمیں آپکی معاونت درکار ہے۔عدالت نے سماعت ملتوی کر دی۔