پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا الزام مسترد- ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے حصے سے بڑھ کر کام کیا۔دہشت گردی کے خلاف امریکا سے تعاون جاری رکھیں گے-وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی غیرملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 13 ستمبر 2017 11:02

پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا الزام مسترد- ہم نے دہشت ..
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13 ستمبر۔2017ء) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے حصے سے بڑھ کر کام کیا۔پاکستان افغان مسئلے کے پرامن حل کے لیے اس خطے کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ پرعزم ہے، پاکستان امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات کے لیے تیار ہے کیونکہ دونوں ممالک کے تعلقات کئی دہائیوں پر مشتمل ہیں اور انہیں صرف مسئلہ افغانستان کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔

دہشتگردی کا مسئلہ بلاشبہ پاکستان کے لیے باعث تشویش ہے اور اس کے حل کیلئے ہم نے بہت کچھ کیا ہے اور اسے شکست دی ہے۔وزیراعظم ہاﺅس میں غیرملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے انہیں دعوت دی کہ وہ میرانشاہ کا دورہ کریں اور خود اس بات کا مشاہدہ کریں کہ پاکستان کہ فوج نے کس طرح دہشتگردی کیخلاف جنگ میں عظیم قربانیاں پیش کرتے ہوئے علاقے کو کلیئر کیا ہے۔

(جاری ہے)

وزیراعظم نے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے بارے میں الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے سرحدی علاقوں کے ساتھ شمالی وزیرستان بھی ویسا ہی علاقہ ہے تاہم انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) نے وہاں کیا حاصل کیا؟ پاکستان مشترکہ گشت اور چوکیوں کیلئے تیار ہے، ہم نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگائی ہے اور اگر دوسری جانب سے ایسا کیا جاتا ہے تو اس کا خیر مقدم کریں گے۔

دوسری جانب سے دہشت گردوں کی موجودگی، پاکستانی سرحدی علاقوں پر حملوں کے حوالے سے پاکستان کے خدشات دور کرنے کی ضرورت ہے، سرحد کی دوسری جانب سے بہت کچھ ہو رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے اس تاثر کو یکسر رد کر دیا کہ حملے پاکستانی علاقے سے کیے جاتے ہیں اور انہوں نے کہا کہ شدت پسندوں کی قیادت افغانستان میں موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں حکومت کی اچانک تبدیلی کے بعد نئی حکومت نے ایک ہفتے کے اندر کام شروع کیا اور اب معاملات معمول کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔

میری حکومت کا مینڈیٹ جمہوری عمل کو مکمل کرنا اور جاری ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ہے۔ ملک میں جمہوری نظام وقت گزرنے کیساتھ مزید مضبوط ہو رہا ہے، ریاستی اداروں کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔وزیراعظم نے اس امر کو سختی سے رد کیا کہ ملک میں جمہوریت پٹڑی سے اتر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری نظام کے بارے میں بحث زور پکڑ سکتی ہے لیکن بالاآخر یہ معاملہ طے پا جائے گا۔

”برکس“ اعلامیے کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ یہ بیان پاکستان کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں بعض کالعدم تنظیموں کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ کالعدم تنظیموں کے حوالے سے پاکستان اور چینی حکومتوں کی پالیسی میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ خارجہ پالیسی حکومت کے تابع ہے اور فوج حکومت کا حصہ ہے۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت نے کم سے کم افراط زر کے ساتھ آئی ایم ایف پروگرام کامیابی سے مکمل کیا ہے، اب ہمیں آئی ایم ایف سے رجوع نہیں کرنا پڑے گا، توقع ہے کہ حکومت اپنے معاشی اہداف حاصل کرے گی۔

اسٹاک ایکسچینج بھی آنے والے دنوں میں اوپر جائیگی جب کہ موجودہ اقتصادی مسائل یقیناً ایک چیلنج ہیں لیکن ہم ان سے نبردآزما ہو رہے ہیں‘ اس کے علاوہ روپے کی قدر میں کمی نہیں کی جا رہی۔پاک امریکا تعلقات میں اتارچڑھاﺅسے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور عسکری تعلقات استوار ہیں جو مزید مضبوط ہوں گے۔

امریکا نے صدر ٹرمپ کے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں پالیسی بیان سے پیدا ہونے والے بعض تاثرات کو واضح نہیں کیا۔ پاکستان ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے اور امریکی کمپنیوں کے لیے یہاں اربوں ڈالر کے مواقع ہیں۔ ہم دہشت گردی کیخلاف امریکا کیساتھ ملکر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اگر دونوں ممالک کو کوئی تحفظات ہیں تو اسے دور کیا جانا چاہیے۔

ہم ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی اسی کی توقع رکھتے ہیں۔لائن آف کنٹرول پر پاک بھارت کشیدگی کے بارے میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ پرامن تعلقات قائم رکھنے کے لیے کوششوں کا خیر مقدم کیا اور وہ اس مسئلے کو پرامن طور پر حل کرنے کا خواہاں ہے۔ ہم اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں اپنا نکتہ نظر اجاگر کریں گے جس میں افغانستان اور بھارت کا احاطہ کیا جائیگا۔

عالمی برادری کو پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ دنیا کے بڑے دارالحکومتوں کا دورہ کر رہے ہیں جہاں ان ممالک کی قیادت کے ساتھ صدر ٹرمپ کا بیان بھی زیر بحث آئے گا۔ خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کی ثالثی سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ہم اس معاملے کو دو ممالک کے درمیان کے طور پر دیکھتے ہیں۔

وزیر اعظم نے افغانستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف کام کرنے کی پیش کش کی ہے، تاکہ دہشت گرد گروپوں اور ان کے محفوظ ٹھکانوں کی باہمی طور پر تصدیق کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں جو کچھ درکار ہے، پاکستان مکمل طور پر اور کھلے دل کے ساتھ وہ سب کچھ کرنے پر تیار ہے ۔ا±نھوں نے کہا کہ باہمی سطح پر تصدیق کے طریقہ کار کی تفصیل وضع کی جا سکتی ہیں۔

اگر آپ کو اعداد و شمار درکار ہیں تو افغانستان کی جانب سے بہت کچھ ہو رہا ہے، نہ کہ پاکستان کی طرف سے افغانستان میں اتنا کچھ ہو رہا ہے۔امریکی صدر کے پالیسی بیان پر ایک سوال کے جواب وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں ان اقدامات کی فہرست موصول نہیں ہوئی جو امریکا چاہتا ہے۔تاہم پاکستان دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں اپنا تعاون جاری رکھے گا، جیسا کہ ماضی میں کرتا آیا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے 70 سالہ تعلقات کو محض افغانستان کے حوالے سے نہیں دیکھا جانا چاہیئے۔