سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس، سپریم کورٹ کا ہسپتال کی بحالی، زخمیوں کے علاج معالجہ اور متاثرین کی مالی امداد کیلئے اقدامات سے متعلق پیشرفت رپورٹ پر اظہار اطمینان

منگل 12 ستمبر 2017 23:44

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 ستمبر2017ء) سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس میں ہسپتال کی بحالی، زخمیوں کے علاج معالجہ اورمتاثرہ خاندانوں کی مالی امداد کیلئے بلوچستان حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق پیشرفت رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کر تے ہوئے بارز نمائندووں کوہدایت کی ہے کہ وہ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان سے مشاورت کر کے 10 روز میں اپنی سفاشارت عدالت کو پیش کریں۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی سول سرونٹ حکومت کے آرڈرز نہیں مانتا تو اسے نوکری پر رہنے کا کوئی حق نہیں،اگر ہم متحد رہے تو پاکستان بہت جلد دہشت گردی پر مکمل طور پر قابو پالے گا، مایوسی کی ضرورت نہیں جب نظام ٹھیک کام کرے گا تومسائل بھی کم ہوں گے۔

(جاری ہے)

منگل کو جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے بلوچستان حکومت کی جانب سے پیش رفت کے حوالے سے رپورٹ عدالت میں پیش کی جبکہ پولیس حکام کی جانب سے الگ رپورٹ پیش کی جس میںبتایا گیا کہ ایک ارب پچاس کروڑ روپے کی رقم متاثرین پرخرچ کی گئی، وکلاء سمیت 92 زخمی افراد کو مفت طبی امداد دی گئی اور متاثرہ وکلاء کے بچوں کی تعلیم اور زیر تعلیم وکلاء کے لیے انڈوومنٹ فنڈ قائم کردیا گیا ہے جس کیلئے 50کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ متاثر ین کی امداد کے لئے پنجاب حکومت نے 7 کروڑ 50 لاکھ روپے اور سندھ حکومت نے 4 کروڑ روپے دیئے ہیں، اسی طرح سی ایم ایچ کوئٹہ کو وکلاء کے علاج کی مد میں 65 لاکھ روپے جبکہ آغا خان ہسپتال کراچی کو 3 کروڑ 25 لاکھ روپے ادا کیے گئے ہیں اور ایک کروڑ 18 لاکھ روپے زخمی وکلا کو دئیے گئے جبکہ شہدا کے ورثا کو ایک کروڑ فی کس کے حساب سے 65 کروڑ روپے دیئے گئے ہیں۔

پولیس کی رپورٹ میںعدالت کو بتایاگیا ہے کہ کیس کے تمام ملزمان گرفتار ہیں یا مارے جاچکے ہیں، صرف ایک ملزم مفرور ہے۔ دوسری جانب کیس کا ٹرائل جاری ہے، یہاں عدالت میں تفصیلات بتانے سے تفتیش متاثر ہوگی تاہم عدالت چاہے تو ان کیمرہ بریفنگ دی جا سکتی ہے۔ ا س موقع پر جسٹس دوست محمد نے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے کہاکہ دشمن قوتیں پاکستان کی ترقی نہیں چاہتیں لیکن انشاء اللہ پاکستان قائم ودائم رہے گا، اگرہم متحدہ رہے تو بہت جلددہشت گردی کے خطرات بھی ٹل جائیں گے تاہم اگر نظام ٹھیک کام کرتاتوہمیںیہ دن نہ دیکھناپڑتا لیکن مایوسی کی ضرورت نہیں، اگرہم متحد رہے تودہشت گردی کاخاتمہ ضرور ہو کر رہے گا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سی پیک اربوں کا منصوبہ ہے جس کے ثمرات لوگوں تک ضرور پہنچیں گے تاہم اس منصوے کے تحت ایک عالمی معیارکا جدید ہسپتال بنانا ضروری ہے۔ ان کاکہنا تھاکہ ڈاکٹرز ٹراما سینٹر میں ٹرانسفر ہونے پر پس وپیش سے کام لے رہے ہیں کیونکہ ان کے پرائیویٹ کلینکس کا کام متاثر ہوتا ہے۔ سماعت کے دو ران کوئٹہ بار کے وکیل حامد خان نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر 6 نکات پر اتفاق رائے ہوا تھا، وکلاء کی ہائوسنگ سوسائٹی کی بات کی گئی تھی ۔

ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ اس حوالے سے کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی کے لئے پیشرفت جاری ہے اور نوٹیفیکیشن جاری ہوچکا ہے ۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کہ ہسپتال اور ٹراما سینٹر بن چکے اور وہ فنکشنل ہیں، 30 نئے ڈاکٹرز تعینات کئے گئے ہیں جبکہ سانحہ کے وقت غفلت برتنے والے ڈاکٹرز کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ 24 گھنٹے سروس کیلئے ڈاکٹرز موجود نہیں ہیں ۔

ڈاکٹرز کے وکیل ذوالفقار عباس نقوی نے کہا کہ بولان میڈیکل کالج میں 138پروفیسر ہیں، ان کو چھوڑ کر بلوچستان حکومت نے خود سے 30 ڈاکٹر پروفیسرز بھرتی کیے ہیں، عدالت نے ان کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ پبلک سروس کمیشن کا کام ہے، آپ وہاں رجوع کریں اگر عدالت ان ایشوز پر کام کرے گی تو اصل مقصد سے ہٹ جائے گی ۔ حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ لواحقین کو سرکاری نوکری بھی ملنی چاہیئے۔

جسٹس کھوسہ نے کہا کہ اس طرح اگر عدالت بھرتی کا حکم دیتی ہے تو یہ میرٹ او خود عدالتی فیصلوں سے متصادم ہوگا۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ دہشت گردوں کاکوئی مذہب نہیں ہوتا ،دہشت گرد حملے مسجد، امام بارگاہ ،مندر اور چرچ سمیت ہر جگہ ہوئے ہیں لیکن دہشت گردوں کو بہرحال شکست ہوگی۔ سماعت کے دوران ہزارہ برادری کے رہنما جعفررضا کی درخواست پر عدالت نے ایڈووکیت جنرل بلوچستان سے کہا کہ بلوچستان حکومت ہزارہ برادری کے تحفظ کے لیے بھی عملی اقدامات کرے۔

انہوں نے بلوچستان پولیس کو بھی ہدایت کی کہ ہزارہ برادری کی حفاظت کے لئے اقدامات کئے جائیں، جس پرایڈووکیٹ جنرل بلوچستان اور پولیس حکام نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ ہزارہ برادری کے حوالے سے وہ ہرممکن اقدامات اٹھائیں گے، مزید سماعت 16 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی ۔