شمالی کوریا نے اقوام متحدہ کی پابندیاں رد کردیں، امریکا کو دھمکی

امریکا جلد اب تک کا شدید ترین درد محسوس کرے گا، واشنگٹن حکومت سیاسی، معاشی اور فوجی جارحیت کے ذریعے شمالی کوریا کی اس جوہری طاقت میں کمی کی خواہاں ہے جو تکمیل کے قریب پہنچ چکی ہے پیانگ یانگ کے سفارت کار ہان تائے سونگ کا تخفیف اسلحہ بارے اقوام متحدہ کے تعاون سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب

منگل 12 ستمبر 2017 23:29

شمالی کوریا نے اقوام متحدہ کی پابندیاں رد کردیں، امریکا کو دھمکی
جنیوا /پیانگ یانگ /نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 12 ستمبر2017ء) شمالی کوریا نے اقوام متحدہ کی طرف سے لگائی جانے والی نئی پابندیوں کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا جلد اب تک کا شدید ترین درد محسوس کرے گا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق جنیوا میں تخفیف اسلحہ پر اقوام متحدہ کے تعاون سے ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیانگ یانگ کے سفارت کار ہان تائے سونگ کا کہنا تھا کہ واشنگٹن حکومت سیاسی، معاشی اور فوجی جارحیت کے ذریعے شمالی کوریا کی اس جوہری طاقت میں کمی کی خواہاں ہے جو تکمیل کے قریب پہنچ چکی ہے۔

اس سے قبل اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے شمالی کوریا کو چھٹے اور سب سے بڑے ایٹمی تجربے کی سزا دینے کے لیے متفقہ طور پر نئی پابندیاں عائد کردیں۔

(جاری ہے)

شمالی کوریا پر عائد ہونے والی نئی پابندیوں میں ٹیکسٹائل کی برآمدات اور تیل کی مصنوعات کی ترسیلات پر پابندی شامل ہیں۔شمالی کوریا پر پابندیوں کے حوالے سے امریکا کی جانب سے تیار کردہ مسودے کو سیکیورٹی کونسل نے چین اور روس کی حمایت کے ساتھ منظور کر لیا۔

خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ نے گذشتہ ماہ 13 اگست کو شمالی کوریا پر بین البراعظمی بیلسٹک میزائل(آئی سی بی ایم) کا تجربہ کرنے پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے لوہے، خام لوہے اور سمندری غذا کی درآمد پر پابندی عائد کی تھی۔اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلے نے سیکیورٹی کونسل سے خطاب میں کہا کہ یہ پیانگ یانگ کو واضح پیغام ہے کہ دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں کا شمالی کوریا قبول نہیں۔

امریکی سفیر نے اس مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکا جنگ نہیں چاہتا، جبکہ شمالی کوریا نے بھی ابھی تک ناقابلِ واپسی کی حد عبور نہیں کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر شمالی کوریا اپنا نیوکلیئر پروگرام بند کرنے پر رضا مند ہو جائے اور اپنے آپ کو پر امن ثابت کرے تو دنیا بھی اس کے ساتھ پر امن طریقے سے رہے گی، اگر شمالی کوریا اس خطر ناک راستے پر گامزن رہا تو اس پر مزید دبا بڑھایا جائے گا لہذا اب فیصلہ اسے کرنا ہے۔

نئی پابندیوں کے مطابق شمالی کوریا کو قدرتی گیس کی در آمد، ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ ریفائنڈ آئل کی مصنوعات اور خام تیل کی برآمدات کی موجودہ حد پر تجارت کرنے کی پابندی عائد کردی۔دنیا بھر کے ممالک کو ان کے ملک میں ملازمت کرنے والے شمالی کوریا کے باشندوں کو نئے ورک پرمٹ جاری کرنے کی بھی ہدایت جاری کی۔

یاد رہے کہ شمالی کوریا نے رواں ماہ 3 ستمبر کو اپنا چھٹا اور سب سے بڑا جوہری تجربہ کرنے کا دعوی کیا تھا۔شمالی کوریا نے ستمبر 2016 میں اپنے پانچویں اور اس کے 'سب سے بڑی' کامیاب جوہری تجربے کا اعلان کیا تھا، جس کے نتیجے میں پونگی ری نیوکلیئر ٹیسٹ سائٹ کے قریب 5.3 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔جنوری 2016 میں ہی شمالی کوریا نے ہائیڈروجن بم کے پہلے کامیاب تجربے کا دعوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکا کی سفاکانہ پالیسیوں سے بچنے کے لیے اپنے جوہری پروگرام کو مزید طاقتور بنانے کا عمل جاری رکھیں گے۔

گذشتہ ماہ 29 اگست کو شمالی کوریا نے ایٹمی مواد لے جانے کی صلاحیت کے حامل درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کے کامیاب تجربے کا دعوی کیا تھا، جو جاپان کے اوپر سے گزرتا ہوا شمالی بحر الکاہل میں اپنے ہدف تک پہنچا تھا۔خیال رہے کہ گذشتہ ماہ شمالی کوریا کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) کا کامیاب تجربہ کرنے کا دعوی کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس کامیاب تجربے کے بعد اب امریکا شمالی کوریا کے میزائلوں کے نشانے پر ہے۔

بعد ازاں امریکا نے شمالی کوریا کے میزائل تجربے کے جواب میں اسے خبردار کرنے کے لیے جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر ایک میزائل تجربہ کیا تھا۔امریکی صدر نے گذشتہ دنوں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پیونگ یانگ کو اپنے ہتھیاروں کی وجہ سے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے لیے بہتر ہے کہ وہ اب امریکا کو مزید دھمکیاں نہ دے ورنہ اسے ایسے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا جو آج تک دنیا نے نہیں دیکھا۔

امریکی صدر کے اس بیان کے بعد شمالی کوریا نے ڈونلڈ ٹرمپ کو نامعقول شخص قرار دے کر بحر الکاہل میں امریکی فوجی اڈے گوام کو نشانہ بنانے کے منصوبے پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔بعد ازاں شمالی کوریا کے سپریم کمانڈر کم جونگ ان نے امریکی جزیرے گوام کو نشانہ بنانے کا منصوبہ ترک کرتے ہوئے امریکا کو آئندہ شمالی کوریا مخالف بیان دینے پر خبردار کرتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔