سپریم کورٹ میں سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت

متاثرین کی بحالی کے لیے بلوچستان حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام کی تعریف ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنڈرانی نے سانحہ کوئٹہ میں شہید ہونے والے وکلاء کے ورثہ اور دیگر متاثرین کی بحالی سے متعلق تحریری رپوٹ سپریم کورٹ میں پیش کی عدالت عالیہ کا صوبائی پولیس کو سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات مکمل کر کے چلان عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت اگر ہم متحد رہے تو دہشت گردی کے سائے ہمیشہ کے لیے ٹل جائیں گے اور پاکستان قائم و دائم رہے گا ، دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ، جسٹس دوست محمد خان ہمیں ہزارہ کمیونٹی کا تحفظ اتنا ہی عزیز ہے جتنا اپنی جان یا کسی دوسرے پاکستانی کا ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ

منگل 12 ستمبر 2017 17:52

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 ستمبر2017ء) سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سانحہ کوئٹہ کے متاثرین کی بحالی کے لیے بلوچستان حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت متاثرین کی بحالی کے لیے سنجیدہ سنجیدہ ہے،امید ہے اسی جذبے کے ساتھ اقدامات کاسلسلہ جاری رہے گا ، کیس کی سماعت کے دوران جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیئے کہ اگر ہم متحد رہے تو دہشت گردی کے سائے ہمیشہ کے لیے ٹل جائیں گے اور پاکستان قائم و دائم رہے گا ، دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں وہ مسجد ، مندر ، امام بارگاہ سمیت کوئی جگہ نہیں چھوڑتے جہاں حملے نہ کریں ۔

منگل کو کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکن بنچ نے کی ، دوران سماعت بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنڈرانی نے سانحہ کوئٹہ میں شہید ہونے والے وکلاء کے ورثہ اور دیگر متاثرین کی بحالی سے متعلق تحریری رپوٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جس میں عدالت عظمیٰ کو بتایا گیا ہے کہ صوبائی حکومت متاثرین کی بحالی کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کر رہی ہے اور اب تک ایک ار ب سے زائد متاثرین کی بحالی کے لیے خرچ کیے جا چکے ہیں جن میں ساڑھے ساتھ کروڑ پنجاب او ر چار کروڑ سندھ حکومت نے دیئے ہیں ، 92وکلاء کو مفت طبی امداد دی گئی ہے ، وکلاء کی تربیت اور شہداء کے بچوں کی تعلیم کے لیے بھی پچاس کروڑ کا انڈونمنٹ فنڈ قائم کیا گیا ہے ، دوران سماعت بلوچستان پولیس کی جانب سے عدالت میں سربمہر تفتیشی رپورٹ بھی پیش کی گئی عدالت نے صوبائی پولیس کی تفتیشی رپورٹ کو قابل ستائش قرار دے رپورٹ پولیس کو واپس کردی ہے ، بعدا زاں عدالت نے بلوچستان حکومت کی جانب سے متاثرین کی بحالی کے لیے اٹھائے گئے اقدام کو سنجیدہ قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ بلوچستان باراورایڈووکیٹ جنرل باہمی مشاورت سے شہدا کی ہاوسنگ سوسائٹی کامعاملہ حل کریں اور ایک ماہ میں پیش رفت رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے ، دوران سماعت ہزارہ کمیونٹی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین لیاقت ہزارہ عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے موقف اختیار کیا کہ بلوچستان میں ہزارہ برادی کو نشانہ بنایاجا رہا ہے ، ہمار ے دو ہزار سے زائد لوگوں کو مار دیا گیا ،آج تک پتہ نہیں چل سکا کون مار رہا ہے اور نہ ہی ہمیں کوئی معاوضہ دیا جا رہا ہے ، ہمارے اوپر مافیا کو مسلط کر دیا گیا ہے ، نقل و حرکت کی آزادی بھی نہیں کیاہم پاکستان کے شہری نہیں ہیں اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے تحفظ کے لیے سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے، جبکہ جسٹس دوست محمدخان نے کہا کہ اس طرح اساس محرومی نہیں ظاہر کرنی چاہیے ، 78ہزار سنی بھی شہید ہوچکے انکو کس نے مارا یہ بھی پتہ نہیں چل سکا ،لکی مروت میں 150لوگ دھماکے میں شہید اور 250سے زائد زخمی ہوئے اب تک پتہ نہیں چل سکا کون ملوث تھا اس واقع میں ، دہشت گردوں کی کوئی زات پات نہیں ہوتی ،وہ مسجد ، مندر ، امام بارگاہ کوئی جگہ نہیں چھوڑتے جہاں حملہ نہ کریں انشاء اللہ اگرہم متحدہ رہے تو بہت جلد دہشت گردی کے خطرات ٹل جائیں گے اور پاکستان قائم اوردائم رہے گا، خامیاں سسٹم میں بھی ہیں اگر نظام ٹھیک کام کرتاتوہم کویہ دن نہ دیکھناپڑتا دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں ہزارہ کمیونٹی کا تحفظ اتنا ہی عزیز ہے جتنا اپنی جان یا کسی دوسرے پاکستانی کا ہے ۔

(جاری ہے)

پولیس کوشش کرے کہ ہزارہ برادری کے تحفظ کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے انہیں تکلیف نہ ہو ، ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ ٹراما سینٹر میں ایک شفٹ کے لیے سرجن موجود ہوتا ہے لیکن دوسری شفٹ کے لیے سرجن ڈاکٹر موجود نہیں ہوتا ، ٹراما سینٹر میں 24گھنٹے سرجن موجود ہونا چاہیے ، بلوچستان حکومت کی جانب سے شہداء کے ورثہ کو نوکری دینے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی لیکن اس پر عمل نہیں ہو رہا اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کسی کو نوکری پر رکھنے کا حکم نہیں دے سکتی عدالت کے فیصلے موجود ہیں کہ نوکری صرف میرٹ کی بنیاد پر طے کردہ طریقہ کار کے مطابق دی جائے گی ، اگر حکومت اور وکلاء کے درمیان اس پر معاملات طے ہو جاتے ہیں اور کوئی اعتراض نہیں کرتا تو نوکری دیتی رہے ، عدالت اس حوالے سے کوئی حکم نہیں دے سکتی ، عدالت نے اس حوالے سے کوئی حکم دیا تو ہمارے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ، دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ جوڈاکٹر حکومت کی نہیں سنتے انکے کیخلاف کارروائی کی جائے ، سول سرونٹ حکومت کی بات نہیں مانتا تو اس کو نوکری کا کوئی حق نہیں ہے ، حکومت کی نہ ماننے والے افسران کیخلاف ایکشن ہونا چاہیے ، دوران سماعت جسٹس دوست محمد خان کا کہناتھا بلوچستان میں وفاقی حکومت اوردوست ممالک کوسی پیک کے تحت مل کرایک جدید ہسپتال بھی بنانا چاہیے ، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ سی پیک بلین روپیز کامنصوبہ ہے ہزاروں لوگ اس میں شامل ہوں گے اس کے لیے بھی ہسپتال ضروری ہے ، بعد ازاں عدالت نے صوبائی پولیس کو سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات مکمل کر کے چلان عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 16اکتوبر تک ملتوی کردی ۔