کھرب اندرونی اور59 ارب ڈالر بیرونی قرضے واجب الادا ہیں،حکومت

سٹیٹ بنک سی749ارب قرضہ لیا جس میں بتدریج کمی کی جارہی ہے،ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح میں کمی ہے، پہلی12.75 فیصد منافع دیا گیا اب7.54فیصد منافع دیا جارہا ہے،وزیر قانون شمالی اور جنوبی وزیرستان ایجنسی میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مستحقین کی تعداد بہت کم ہے جس میں اضافہ کیا جارہا ہے ،مئی2018ء میں سروے مکمل ہوجائے گا ،زاہد میں کا وقفہ سوالات کے دوران اظہار خیال

بدھ 30 اگست 2017 20:08

کھرب اندرونی اور59 ارب ڈالر بیرونی قرضے واجب الادا ہیں،حکومت
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 30 اگست2017ء) ایوان بالا کو بتایا گیا کہ پاکستان پر128کھرب روپے سے زیادہ اندرونی قرضے جبکہ59 ارب ڈالر بیرونی قرضے واجب الادا ہیں،پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد ساڑھی5کروڑ سے زائد ہے،حالیہ سال کے دوران بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کئے جانے والے حالیہ سروے میں شمالی اور جنوبی وزیرستان کے قبائلیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔

بدھ کے روز ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران تحریری طور پر بتایا گیا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران حکومت نے اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے سٹیٹ بنک سی749ارب روپے قرضہ لیا ہے اور اس میں بتدریج کمی کی جارہی ہے،حکومت شیڈولڈ بنکوں سے مختصر المعیاد قرضوں کی بجائے طویل المعیاد قرضے لے رہی ہے اس سے اسٹیٹ بنک پر انحصار کم ہو گا اس طرح مختلف سرکاری اداروں کی نجکاری سے حاصل ہونے والی90 فیصد سرمائے کو قرضے اتارنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ایوان بالا کو بتایا گیا کہ پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جو کہ کل آبادی کا تقریباً ساڑھی5 کروڑروپے بنتی ہے اس طرح پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی فی کس آمدنی3ہزار روپے ماہانہ ہے۔سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ کے ضمنی سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیرقانون زاہد حامد نے بتایا کہ حکومت نے ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح میں کمی ہے پہلے ان سرٹیفکیٹس پر12.75 فیصد منافع دیا جاتا تھا جبکہ اب7.54فیصد منافع دیا جاتا ہے اور منافع کی شرح کا فیصلہ اسٹیٹ بنک کی جانب سے کیا جاتا ہے۔

ایوان بالا کو بتایا گیا کہ اپریل2017ء تک ملک کے اندرونی قرضی128 کھرب58ارب روپے ہیں جبکہ بیرونی قرضی59 ارب ڈالر سے زائد ہے حکومت اندرونی قرضوں پر8.20فیصد کے حساب سے جبکہ بیرونی قرضوں پر اوسطاً2.15فیصد کے حساب سے سود ادا کرتی ہے۔سینیٹر چوہدری تنویر خان کے ضمنی سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کو لکھا گیا ہے کہ انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کو بند نہ کیا جائے کیونکہ یہ ادارہ انجینئرنگ کے شعبے میں خدمات سرانجام دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادارے کے بورڈ کی سفارشات بھی وزیراعظم کو بھجوائی گئی ہیں اور امید ہے کہ ادارے کو بند نہیں کیا جائے گا۔سینیٹر احمد حسن کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر صنعت وپیداوار نے کہا کہ ہندوستان میں چھوٹی گاڑیوں کی پروڈکشن بہت زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں پروڈکشن کم ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں چھوٹی گاڑیاں بنانے والوں کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں ہے اس وجہ سے پاکستان میں قیمتیں زیادہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نئی آٹو پالیسی کے بعد مزید4کمپنیاں گاڑیوں کے شعبے میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزارت صنعت وپیداوار کا گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔سینیٹر احمد حسن کے ضمنی سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ ملک بھر میں بے نظیر انکم سپورٹ کا سروے دوبارہ کیا جارہا ہے اور اس کیلئے باقاعدہ ایک فرم کے ساتھ معاہدہ کیا جائے گا۔

سینیٹر چوہدری تنویرخان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ برآمد کنندگان کے ایف بی آر کے ذمے ریفنڈز کی ادائیگیوں کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں اور اس کو بڑھایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ برآمد کنندگان کو کمپیوٹرائزسسٹم کے ذریعے 24گھنٹوں میں ریفنڈ ادا کیا جاتا ہے۔سینیٹر چوہدری تنویر خان کے ضمنی سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون نے بتایا کہ ٹیسٹنگ سروس کے ادارے کسی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کر رہے ہیں۔

سینیٹر احمد حسن کے ضمنی سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ شمالی وزیرستان ایجنسی اور جنوبی وزیرستان ایجنسی میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مستحقین کی تعداد بہت کم ہے،مئی2018ء میں بے نظیر انکم سپورٹ کا سروے مکمل ہوجائے گا اور اس میں مستحقین کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔سینیٹر عتیق شیخ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد نے بتایا کہ موبائل کمپنیاں برانچ میں بنکنگ سسٹم کے تحت کام کر رہی ہیں اور اس کی اجازت ملک کی13بنکوں نے لی ہوئی ہے،اس کی مکمل نگرانی ہوتی ہی۔