ڈاکٹر قدیر خان نے میرے گھُٹنے پکڑ کر مجھ سے معافی مانگی تھی ۔ سابق صدر پرویز مشرف

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 30 اگست 2017 11:02

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 30 اگست 2017ء) : نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے بتایا کہ امریکی صدر جارج بُش نے مجھے نیوکلئیر ڈیل کرتے ہوئے لوگوں کی تصاویر دکھائیں تو میں شرمندہ ہو گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ان تصاویر میں ڈیل کرنے والوں کے ساتھ ڈاکٹر عبد القدیر خان کی ایک تصویر بھی تھی جبکہ باقی فرنٹ مین تھے ۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے ڈاکٹر قدیر خان کو اپنے دفتر بلوا کر تصاویر دکھائیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے روتے ہوئے میرے گھُٹنے پکڑے اورمعافی بھی مانگی ۔ ڈاکٹر قدیر ایٹمی پھیلاؤ کے عالمی مُجرم تھے لیکن میں نے انہیں تحفظ فراہم کیا۔ خود دباؤ برداشت کیا لیکن ڈاکٹر عبد القدیر خان کو کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کیا۔

(جاری ہے)

اور آج جب ڈاکٹر قدیر خان میرے خلاف بات کرتا ہے تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ اسے قبل گذشتہ روز بھی ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دینے کے دوران سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے ڈاکٹر قدیر خان کی نظر بندی سے متعلق اہم انکشافات کیے تھے ۔ گذشتہ روز دئے جانے والے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کی نظر بندی اور دیگر امور سے متعلق سب سے پہلے میں نے ہی نواز شریف کو جی ایچ کیو میں پریزنٹیشن دی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو ہٹوایا تھا۔ میں نے نواز شریف کو آگاہ کیا تھا کہ اس زمانے میں جاسوسیاں ہو رہی تھیں۔ پرویز مشرف نے بتایا کہ ایک مرتبہ ڈاکٹر اے کیو خان نے دبئی جانے کے لیے مجھ سے اجازت لی اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ دبئی بھی چلے گئے اور بعد میں وہاں سے سوڈان بھی چلے گئے جس پر میں نے انہیں بُلا کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ ادھر اُدھر کیوں جاتے ہیں ؟ آپ نے جہاں جانا ہوتا ہے وہاں کا بتایا کریں۔

یہ اس سے پہلے کا واقعہ ہے جب تک ڈاکٹر ایک کیو خان نے معافی نہیں مانگی تھی اور اس حوالے سے ثبوت امریکہ نے فراہم کیے تھے۔ اگر کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ زندگی میں سب سے زیادہ شرمندگی کا سامنا کب کرنا پڑا تو میں یہی کہوں گا کہ سب سے زیادہ شرمندگی مجھے تب ہوئی تھی جب میں نیویارک گیا ہوا تھا اورمیں نے امریکی صدر جارج بُش سے ملاقات کی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اگر آپ اعتراض نہ کریں تو کل صبح سی آئی اے کے باس سے ملاقات کرنی ہے۔

میں نے بُش کو بتایا کہ میں تو کل صبح واپس جا رہا ہوں اگر زیادہ اہم ہے تو میں رُک جاتا ہوں جس پر جارج بُش نے کہا کہ جی ہاں یہ بہت اہم ہے۔ سی آئی اے کے باس صبح سویرے میرے ہوٹل آئے ۔ انہوں نے مجھے proliferationکے بارے میں بتایا جس پر میں نے انہیں کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے سب کچھ کنٹرول میں ہے۔ انہوں نے اپنا بریف کیس کھولا اور اس میں سے ایک فائل نکالی اور مجھے دے دی۔

میں نے اس فائل کو دیکھا تو اس میں کچھ تصاویر ، دستخط اور دستاویزات موجود تھیں۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کا ایک سری لنکن خاص آدمی تھا جسے وہ بطور فرنٹ مین استعمال کرتے تھے۔ وہ ڈبل ایجنٹ تھا جو امریکہ کو بھی ساری باتیں بتا رہا تھا ۔ میں وہ ثبوت دیکھ کر شرمندہ ہو گیا اور میں نے سوچا کہ میں اسے کیا بتاﺅں۔ کیونکہ وہ سو فیصد حقیقت پر مبنی ثبوت تھے ۔

جس پر میں نے سی آئی اے کے چیف سے کہا کہ مجھے علم نہیں ہے ۔ میں واپس جا کر اس کی تحقیقات کرتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ ان تصاویر میں ڈاکٹر قدیر خان کی اپنے فرنٹ مین کے ساتھ تصاویر بھی تھیں اور یہ لوگ ایران وغیرہ کے ساتھ معاہدے کرتے پھر رہے تھے۔جس میں وہ نیوکلئیر پاور کے فارمولاز وغیرہ کا بھی تبادلہ کر رہے تھے۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے مزید کیا کہا آپ بھی ملاحظہ کیجئیے: