آرٹیکل 62 اور 63 میں ترمیم کا فیصلہ آئندہ آنے والی اسمبلی کرے گی۔این آر او میں جمہوریت، الیکشن اور نواز شریف کی واپسی شامل تھی-عدلیہ سے لڑے نہیں ‘مقدمات کا سامنا کیا- چاہتا تو میاں برادران کو لاہور میں حکومت نہ کرنے دیتا، میرے دشمن بھی کچھ ثابت نہیں کر سکے-آصف علی زرداری

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 29 اگست 2017 17:04

آرٹیکل 62 اور 63 میں ترمیم کا فیصلہ آئندہ آنے والی اسمبلی کرے گی۔این آر ..
 اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29 اگست۔2017ء) پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 میں ترمیم کا فیصلہ آئندہ آنے والی اسمبلی کرے گی۔ میں کبھی عدلیہ سے لڑتا نہیں بلکہ ان کےساتھ ساتھ بھاگتا رہتا ہوں جب تک وہ تھک نہ جائیں، مک مکا کہہ دینا بہت آسان ہے، مگر ہر کیس کی ایک طویل داستان ہے، مجھ پر تمام کیسز سیاسی طور پر بنائے گئے اور سب کے سب ختم ہوگئے، ہر کیس میں چار چار پانچ پانچ سو پیشیاں ہوئی ہیں، غلام اسحاق خان کے دور میں مجھ پر 12 کیسز بنائے گئے، ہر مقدمے جیل کے اندر سے جیتا۔

اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ مرتضیٰ بھٹو کو شہید کرکے بے نظیر کی حکومت کو گرایا گیا، مجھ پر تشدد ہوا زبان کاٹی گئی، شدید تشدد کی وجہ سے میری حالت نازک ہوگئی اور ہسپتال منتقل کیا گیا تو پولیس نے خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی، 7 سال کی سزا پر میں نے 24 سال قید کاٹی، مشرف دور میں ہمارے کیسز سیشن کورٹ میں منتقل ہوئے۔

(جاری ہے)

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے کہا کہ این آراو اس لئے کیا گیا کہ اس میں انتخابی اصلاحات سمیت دیگر معاملات شامل تھے اور اس میں جمہوریت، الیکشن اور نواز شریف کی واپسی بھی تھی، پیپلز پارٹی نے کبھی کرپشن اور انتقامی کارروائی نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ میرے خلاف سیاسی انتقامی کاروائیوں کا آغاز لاہور سے ہوا جب مجھے نوٹوں کے ٹرک کا جعلی کیس بنا کر گرفتار کیا گیا، لاہور سے کراچی منتقل کیا گیا اور پھر لانڈھی جیل میں بھی رکھا گیا جو ایک طویل داستان ہے، ایک کیس نہیں چودہ کیسز تھے، این آر او میں الیکشن ریفارمز کی گئیں جس کی وجہ سے میاں صاحب کی واپسی ممکن ہوئی۔

آصف زرداری نے مزید کہا کہ تمام مقدمات سیاسی نوعیت کے تھے، ہر کیس میں 8، 8 پراسیکیوٹرز تھے، مجھ پر ٹارچر ہوا، سب جانتے ہیں کہ مجھے کن حالات میں آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا، غلام اسحاق دور میں بھی 12 کیسز تھے، جیل میں میری گردن اور زبان بھی کاٹی گئی، مجھ پر جیل میں تشدد کو خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی، عدالت نے ثابت کیا کہ یہ خودکشی نہیں، تشدد ہے، مشرف دور میں مزید دو کیسز بنائے گئے، ہمارے خلاف سازش اور تاریخی مذاق کرنے والے لوگ آج بھی موجود ہیں، ہم پر تمام مقدمات سیاسی نوعیت کے بنائے گئے، ایسے لوگوں کو گواہ بنایا گیا جنہیں میں جانتا پہچانتا تک نہیں۔

سابق صدر نے یہ بھی بتایا کہ مجھے ایم پی او کے تحت بند کیا گیا، میری عادت ہے عدالتوں سے لڑتا نہیں ہوں، پنڈی میں سیکنڈ ہینڈ بی ایم ڈبلیو کا کیس بھی مجھ پر بنا دیا گیا، اس کیس میں بھی بری ہوا، سب کیسز جیل میں بیٹھ کر لڑے، اٹک میں میرا دو سال ٹرائل ہوا۔ آصف زرداری نے یہ بھی کہا کہ این آر او میں مشرف کا یونیفارم بھی اتروانا شامل تھا، مشرف کی وردی نہ اترتی تو وہ آج بھی بیٹھا ہوتا، ہماری جنگ جمہوری ہے کبھی ذاتی ایشو نہیں رہا، چاہتا تو میاں برادران کو لاہور میں حکومت نہ کرنے دیتا، میرے دشمن بھی کچھ ثابت نہیں کر سکے، میاں صاحب قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے کیسز نہیں بنائے، ہر ریفرنس جھوٹا ہے بنانے والوں کو کون روکے گا؟ ٹرک میں جو اربوں روپے پکڑے گئے اس کے شواہد کدھر گئے؟آصف زرداری کا کہنا تھا کہ جونیئر کلرک بھی اپنے اختیارات نہیں دیتا میں نے اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو دیئے نیب کا ایک مائنڈ سیٹ ہے، نیب والے سندھ میں غریبوں کو اٹھا کر پیسہ لے کر چھوڑ دیتے ہیں، مگر پیپلز پارٹی انتقامی کارروائیوں پر یقین نہیں رکھتی، اپنے دورِ صدارت میں اپنے خلاف مقدمے بنانے والوں کو ایوان صدر بلا کر کھانا کھلایا، 62 اور 63 میں ترمیم اگلی اسمبلی کا مینڈیٹ ہے، وہی کر سکے گی، بلاول کچھ کہہ دیں کوئی ناں نہیں کہہ سکتاپارٹی میں تنہاءکوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔