اعتزاز احسن نے پاکستان کے خلاف امریکی صدر کے دھمکی آمیز بیان پر وزیردفاع کا معذرت خواہانہ بیان مسترد کردیا

یہ مایوس کن ہے،پوزیشن لیڈر نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے اظہار کیلئے حکومت کی طرف سے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کرنے ، احتجاجی مراسلہ سپرد کرنے ، وزیر خارجہ کے دورہ واشنگٹن کو منسوخ کرنے افغانستان کیلئے امریکی رسد کو روکنے کا انتباہ کرنے ، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کا مطالبہ چیئرمین سینیٹ کا حکومت کو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی توسیع کو روکنے کا مشورہ دیدیا

بدھ 23 اگست 2017 23:20

اعتزاز احسن نے پاکستان کے خلاف امریکی صدر کے دھمکی آمیز بیان پر وزیردفاع ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 اگست2017ء) سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے پاکستان کے خلاف امریکی صدر کے دھمکی آمیز بیان پر وزیردفاع انجینئر خرم دستگیر کے معذرت خواہانہ بیان کو مسترد کرتے ہوئے اسے مایوس کن قراردے دیا، اپوزیشن لیڈر نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے اظہار کیلئے حکومت کی طرف سے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کرنے ، احتجاجی مراسلہ سپرد کرنے ، وزیر خارجہ کے دورہ واشنگٹن کو منسوخ کرنے افغانستان کیلئے امریکی رسد کو روکنے کا انتباہ کرنے ، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کا مطالبہ کر دیا ہے جبکہ اجلاس کی کارروائی کے دوران چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے حکومت کو اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی توسیع کو روکنے کا مشورہ بھی دے دیا ہے ۔

(جاری ہے)

بدھ کو ایوان بالا میں امریکی صدر کی22اگست کے پاکستان کو جنوبی ایشیاء سے متعلق بیان پر بحث کے دوران اپنے خطاب میں چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیردفاع کے بیان سے مایوسی ہوئی ہے ، ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر کوئی حیرت نہیں ہوئی پہلے سے معاملات چل رہے ہیں ، بھارت افغانستان کے معاملے میں ملوث ہے اور بڑی کارروائیاں کر رہا ہے ، پارلیمنٹ کی بالادستی کا اظہار ہونا چاہیے ، چیف آف آرمی سٹاف کے پاس اگر امریکی سفیر گیا ہے تو کیا ہوا ، حکومت کا اگر کمزور بیانیہ ہوگا تو کوئی تو بات کرے گا اور حکومت کو فوری طور پر امریکی سفیر کو طلب کرنا چاہیے تھا اور اس کے ہاتھ میں احتجاجی مراسلہ دینا چاہیے تھا ، پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے حکومت کو امریکہ کو نوٹس دینا چاہییکہ جی لاک اور اے لاک امریکی رسد کو افغانستان کیلئے روک سکتے ہیں ۔

اب تک مشترکہ اجلاس طلب کرنے کا نوٹیفکیشن جاری ہوجانا چاہیے تھا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف سے گزشتہ ایک سال تک کہتا رہا کہ وہ کلبھوشن یادیو کا نام کیوں نہیں لیتے اور یہ بھی کہا کہ جس دن وہ کلبوشن یادیو کا نام لے لیں گے میں بلائنڈ ایسوسی ایشن کو پچاس ہزار کا عطیہ دے دوں گا ۔ امریکی صدر نے یہی بیان دیا ہے کہ افغانستان میں بھارت کے کردار کو بڑھایا جائے گا ، پاکستان کو سبق سکھائیں گے ، یہ سبق تو ہمیں کلبھوشن یادیو کب کا سکھا رہا تھا ہم اس کا نام ہی نہیں لیتے تھے ۔

انہوں نے کہا کہ جب حکومت خود ہی پارلیمنٹ کی بالادستی کا اظہار نہیں کرے گی تو کون کرے گا ۔ اب تک وزیرخارجہ کا دورہ امریکہ منسوخ ہوجانا چاہیے تھا اورہمیں وزیردفاع ایوان میں اس کی نوید دے رہے ہوتے ، حکومت لفظی بیان نہیں دیتی بلکہ اقدامات بھی کرتی ہے ، امریکہ کو اپنے اقدامات کے حوالے سے سخت اطلاعات جانی چاہیے تھی کہ ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں ، کیا کچھ ہماری دسترس میں ہے ، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مہم جوئی کیلئے نکل کھڑے ہوں ، قبرستان بنانے کا بننے کیلئے کفن پہن لیں ، وزیرخارجہ ان حالات میں واشنگٹن جا کر کیا کرے گا ، سعودی عرب جا کر ہمیں کیا ملا، نائن الیون کے بعد سعودی عرب مکمل طور پر امریکہ کا ساتھی ہے ، اگر حکومت متذکرہ پانچ اقدامات کر لیتی تو آج فضاء اور ہوتی ، پارلیمنٹ کی بالادستی اور سویلین اتھارٹی کا اظہار ہوتا ، وزیرخارجہ واشنگٹن جائیں گے ، فقیرانہ انداز میں ان سے بات کریں گے ، امریکہ سے سی این این کیلئے نرم بیان جاری ہو جائے گا ، ہمارے وزیرخارجہ کا پی ٹی وی کیلئے سخت بیان جاری ہو جائے گا اور کچھ نہیں ہوگا اسی لئے تو یہ شعر یاد آگیا ۔

’’حال ہمارا کب بدلے گا، ہم بدلیں گے تب بدلے گا‘‘۔ چیئرمین سینیٹ نے بعض اراکین کے مطالبے پر حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ اسلام آباد میں امریکی سفارتی خانے کی توسیع کو روک کیوں نہیں دیتی ۔ قبل ازیں کو ایوان بالا میں جنوبی ایشیاء اور افغانستان سے متعلق امریکی صدر کی نئی حکمت عملی کے اعلان پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پاکستان نے امریکی صدر کے بیان پر مایوسی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ افغانستان کے مسئلے کے فوجی حل پر یقین نہیں رکھتا، امریکی صدر کے بیان کو ہلکا نہیں لینا چاہیے، علاقائی سلامتی کو امریکی صدر کے بیان کے بعد زیادہ خطرات لاحق ہیں، چین سے ہمارے تعلقات اچھے ہیں، روس سے بھی بڑھائے جائیں، ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی مربوط کوشش کرنی چاہیے۔

سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ امریکی ترجیحات واضح ہو گئی ہیں، امریکی صدر کی تقریر امریکی ناکامی کی عکاسی کرتی ہیں، بھارت کی پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کی کوششیں کامیاب نظر آ رہی ہیں، پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہوا تو بچہ بچہ اپنے وطن کی حفاظت کے لئے کمر بستہ ہو گا۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ امریکی صدر کی طرف سے نئی حکمت عملی کے اعلان کے بعد پاکستان کی بجائے پہلا ردعمل چین نے دیا، پاکستان نے امریکہ سے کہا ہے کہ ہمیں آپ کی امداد کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ بات سویلین طرف سے جانی چاہیے تھی، پاکستان کے لئے یہ بہت خطرناک وقت ہے، ہم نے کابل کو عدم استحکام کا شکار نہیں کیا، نہ ہم وہاں خراب حکومت یا دہشت گرد پناہ گاہوں کے ذمہ دار ہیں، امریکہ بھی اپنے گریبان میں جھانکے، ہمیں استعداد کار کے مسائل ہیں لیکن امریکہ 16 سال سے کیا کر رہا ہے، ہم مشکل وقت میں متحد کھڑے ہیں۔

سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جانا چاہیے، پاکستان کے بغیر خطے میں امن و استحکام قائم نہیں ہو سکتا، پاکستان کو چاہیے کہ امریکہ کو بتا دے کہ اگر وہ تعاون نہیں کرنا چاہتا تو ہم متبادل مواقع تلاش کریں گے، ہمیں اس مشکل وقت میں اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی خود مختاری و سلامتی کے تحفظ کے لئے ہم سب متحد ہیں۔

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ امریکی صدر سے ایسی ہی توقع تھی، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمیں کیا کرنا ہے، ہم 70 سال سے امریکی سامراج کا ساتھ دے رہے ہیں، امریکہ سے ہمارے تعلقات اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر ہیں، عوام کی سطح پر نہیں، ہمیں امن کی ضرورت ہے جبکہ بڑی طاقت امریکہ کا مفاد جنگ میں ہے، ہر اسلامی ملک میں ترقی پسندوں کو گرا کر انتہا پسندوں کو لایا گیا، اسلامی دنیا میں بحران ہے، امپریلیزم، برہمن ازم اور زائنوازم کا اتحاد ہے، فلسطین، کشمیر میں دہشت گردی ہو رہی ہے، امریکہ نے ایک بھی جنگ نہیں جیتی۔

جب تک امریکہ کے ساتھ کام کرنا بند نہ کریں گے اس وقت تک یہ معاملات سدھر نہیں سکتے۔ سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، یہ متحد ہونے کا وقت ہے ہمیں امریکہ سے کہنا کہ ہم نے جو کرنا تھا اب کر لیا اب وہ اپنے حصے کا کام کریں۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ امریکی صدر کا بیان ہارے ہوئے شخص کا ہے، امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اس کی جنگ لڑے، ہمیں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ امریکہ کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی افغانستان میں کچھ نہیں کر سکے تو چار ہزار اور بھی کیا کر لیں گے، بھارت کا چین کے ساتھ مسئلہ ہے، افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، ہمیں پارلیمان کی فنکشنل سیکورٹی کمیٹی سے رہنمائی لینی چاہیے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ صورتحال پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا کر بحث کی جائے، امریکہ کو بتایا جائے کہ قوم اس معاملے پر متحد ہے اور امریکی پالیسیوں کی مذمت کرتی اور اپنی سلامتی کا دفاع کرنا جانتی ہے۔

سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ امریکی صدر کے بیان سے مایوسی ہوئی، ہمارے جوانوں اور عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دی ہیں اور بہت نقصان برداشت کیا ہے، پاکستان پر اپنی ناکامی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ سینیٹر عتیق شیخ نے کہا کہ ہمیں پہلے ہی ناکردہ گناہوں کی بہت سزا مل چکی ہے، ماسکو اور اسلام آباد کے تعلقات مزید بڑھنے سے امریکہ کو پریشانی ہے، چین نے ایک بار پھر برادر دوست ملک ہونے کا ثبوت دیا، امریکہ نے ایران پر پابندیاں لگا کر کیا حاصل کر لیا، قوم امریکی صدر کے بیان سے مایوس نہیں ہے۔

سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ امریکہ کو ویتنام سے راہ فرار نہیں مل رہی تھی، سفارتخانے کی چھت پر ہیلی کاپٹر اتار کر وہاں سے انہیں نکلنا پڑا، زمین پر کہیں ان کے لئے جگہ نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہییے، ہم امریکی صدر کے بیان کی مذمت کرتے ہیں، پوری پاکستانی قوم اس معاملے پر متحد ہے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ہمارے بچے شہید ہوئے اور طنعہ بھی ہمیں مل رہا ہے کہ ڈالر لے رہے ہیں، افغان پالیسی پر امریکہ ناکام ہوا، یہ جنگ وہ جیت نہ سکے اور ملبہ پر ہم ڈالا جا رہا ہے، ہم افغان سرحد پر باڑ لگا رہے ہیں، اس سے واضح ہے کہ ہم مداخلت نہیں چاہتے، ہم معیشت کو مضبوط بنانے سے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں، حکومت مضبوط اور واضح پیغام دے تو نڈر قوم حکومت کے ساتھ کھڑی ہو گی، ہمیں خیرات لینا بند کرنا ہو گی، اپنے وسائل میں رہنا سیکھنا ہو گا۔

سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ اس معاملے پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے، دیگر جو تجاویز آئی ہیں ان کو بھی سراہتے ہیں۔ سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ امریکی صدر اپنی تاریخ بھول گئے ہیں، امریکیوں نے ہر جگہ ناکامیاؓں سمیٹی ہیں۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ امریکی سفارتخانے کا سائز محدود ہونا چاہیے، امریکی یہاں سفارتخانہ بنائیں جاسوسی کا اڈہ نہیں، پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے، سیاسی قیادت نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا، امریکہ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جائے، پاکستان لیبیا یا عراق نہیں ہے، پاکستانی نڈر اور بہادر لوگ ہیں، امریکی گھٹیا ہیں، وہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید یہاں آج بھی مشرف کی حکومت ہے، انہوں نے ڈالر مشرف کو دیئے تھے، آج مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔

سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے اعلان کیا کہ وہ امریکی صدر کی نئی حکمت عملی کے خلاف احتجاج کے طور پر امریکہ نہیں جائیں گے، اپنا علاج پاکستان میں کرائیں گے۔ سینیٹر اشوک کمار نے کہا کہ سیاسی و عسکری قیادت مل بیٹھ کر ایسی پالیسی بنائے کہ امریکہ کو جواب دیا جا سکے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ پالیسیاں اسٹیبلشمنٹ بناتی ہے، پارلیمان کو با اختیار ہونا چاہیے، اس سے سب مسائل حل ہو جائیں گے، خارجہ و داخلہ پالیسی پارلیمان بنائے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ غیر ملکی وفود کو پارلیمان میں آنا اور ارکان سے ملنا چاہیے لیکن وہ ہم سے ملنا بھی گوارا نہیں کرتے۔