سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی زیر صدارت سینٹ فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کا اجلاس

کم ترقی یافتہ علاقوں میں مسائل کی جامع کوریج کیلئے اے پی پی کو گوادر اور فاٹا میں بیورو دفاتر قائم کرنے کی سفارش اے پی پی کے منیجنگ ڈائریکٹر مسعود ملک اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر سہیل علی خان نے تفصیلی بریفنگ دی، کمیٹی نے ملک بھر میں قومی اور مقامی ایشوز کی کوریج کے حوالہ سے اے پی پی کی کارکردگی کو سراہا، فاٹا اور بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں عوام کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے خصوصی رپورٹس اور ڈاکومنٹریز تیار کرنی چاہئیں،بلوچستان سے تعلق رکھنے اے پی پی کے تمام ملازمین کے ڈومیسائل کی تصدیق کی سفارش،اے پی پی کی مالیاتی ضروریات پوری کرانے کی یقین دہانی

بدھ 23 اگست 2017 20:03

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 اگست2017ء) سینٹ کی فنکشنل کمیٹی نے کم ترقی یافتہ علاقوں میں مسائل کی جامع کوریج کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے قومی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کو گوادر اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) میں بیورو دفاتر قائم کرنے کی سفارش کی ہے۔ سینٹ فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کا اجلاس بدھ کو سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں اے پی پی کے منیجنگ ڈائریکٹر مسعود ملک اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر سہیل علی خان نے تفصیلی بریفنگ دی۔

کمیٹی کو ملک کے دور افتادہ علاقوں کی نیوز کوریج کو یقینی بنانے کیلئے اے پی پی کے بنیادی ڈھانچہ، خبروں کے حصول کے نظام اور ضلعی نمائندوں کے وسیع تر نیٹ ورک کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں سینیٹر میر کبیر احمد، خالدہ پروین، جہانزیب جمالدینی اور محمد اعظم خان موسیٰ خیل نے بھی شرکت کی۔ کمیٹی نے ملک بھر میں قومی اور مقامی ایشوز کی کوریج کے حوالہ سے اے پی پی کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے فاٹا اور بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں عوام کو درپیش مختلف مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے ان علاقوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا۔

اے پی پی کے منیجنگ ڈائریکٹر مسعود ملک نے یقین دلایا کہ فنڈز کی دستیابی کی صورت میں کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائے گا کیونکہ پہلے ہی خبر رساں ادارے کو مالیاتی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ بلوچستان کے ہر ضلع میں مزید نمائندوں کی تعیناتی کی سفارش کرتے ہوئے کمیٹی نے یقین دلایا کہ وہ اس بات کی کوشش کرے گی کہ اے پی پی کی مالیاتی ضروریات پوری ہوں تاکہ وہ ملک کے کم ترقی یافتہ علاقوں میں اپنے نیٹ ورک کو وسعت دے سکے۔

ڈائریکٹر جنرل انٹرنل پبلسٹی ونگ ناصر جمال نے بھی وزارت اطلاعات، نشریات و قومی ورثہ کی نمائندگی کرتے ہوئے کمیٹی کو اس کی سفارشات پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی۔ کمیٹی کے چیئرمین عثمان کاکڑ نے یہ بھی سفارش کی کہ اے پی پی کو تمام سیاسی جماعتوں کو کوریج دینے کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور فاٹا کے عوام کو درپیش مسائل کے بارے میں خصوصی رپورٹس اور ڈاکومنٹریز تیار کرنی چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ کم ترقی یافتہ علاقے ملک کے مجموعی علاقہ کا 71 فیصد ہیں اور ان کے مسائل کو اجاگر کیا جانا چاہئے جبکہ ادارہ کو کوئٹہ سے اپنی پشتو سروس شروع کرنے کیلئے بھی کہا گیا۔ کمیٹی نے اے پی پی کی انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ بلوچستان سے تعلق رکھنے اپنے تمام ملازمین کے ڈومیسائل کی تصدیق کرائے۔ اے پی پی کے منیجنگ ڈائریکٹر نے کمیٹی کو بتایا کہ قبل ازیں کمیٹی کے استفسار کی روشنی میں یہ عمل پہلے ہی شروع کر دیا گیا ہے اور مکمل ہونے پر رپورٹ پیش کر دی جائے گی۔

انہوں نے کمیٹی کو بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل رکھنے والے کسی بھی ملازم کے خلاف سخت کارروائی کی یقین دہانی کرائی۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے لوگوں میں شعور بیدار کرنے کیلئے غیر قانونی شکار، درختوں کی کٹائی اور لائیو سٹاک کے بارے میں دستاویزی فلمیں تیار کرنے کی تجویز دی۔ سینیٹر مسز خالدہ پروین نے کہا کہ دستاویزی فلموں اور نیوز فیچرز میں فورٹ منرو، بہاولپور اور چولستان کے مسائل پر بھی توجہ مرکوز کی جائے۔

کمیٹی کو اے پی پی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی کے ارکان نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے بھی نمائندگی ہونی چاہئے۔ بعد ازاں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے ڈائریکٹر جنرل جمال شاہ نے کمیٹی کو گذشتہ اڑھائی برسوں کے دوران پی این سی اے کی مجموعی کارکردگی اور کم ترقی یافتہ علاقوں کیلئے اپنے آئندہ کے منصوبہ جات کے بارے میں آگاہ کیا۔

انہوں نے ان علاقوں کیلئے پی این سی اے کے زیر اہتمام ثقافتی شوز اور دیگر پروگراموں کی تفصیلات بھی پیش کیں۔ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ پاکستان کے عوام کے مابین کوئی لسانی، صوبائی یا ثقافتی تفریق نہیں ہونی چاہئے، پی این سی اے کے پروگراموں میں ہر علاقہ کے لوگوں پر توجہ مرکوز کی جائے۔ کمیٹی نے مالی امداد کی فراہمی کیلئے کم ترقی یافتہ علاقوں کے گلوکاروں، اداکاروں اور فنکاروں پر توجہ دینے کی بھی سفارش کی۔

متعلقہ عنوان :