امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاپاکستان اور افغانستان سے متعلق پالیسی بیان افسوسناک اور مایوس کن ہے ،

اس قسم کا بیان پاکستان کی دہشت گردی کی خلاف جنگ میں دی گئی عظیم جانی و مالی قربانیوں سے انحراف ہے، پچھلے 17 سال سے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن ملک کا کردار ادا کرتے ہوئے اس خطہ سے دہشت گردی کے ناسور کے خاتمہ کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے،وفاقی وزیر چوہدری محمد برجیس طاہر

بدھ 23 اگست 2017 18:56

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کاپاکستان اور افغانستان سے متعلق پالیسی بیان ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 اگست2017ء) وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان چوہدری محمد برجیس طاہر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان اور افغانستان سے متعلق پالیسی بیان کو افسوسناک اور مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کا بیان پاکستان کی دہشت گردی کی خلاف جنگ میں دی گئی عظیم جانی و مالی قربانیوں سے انحراف ہے، پچھلے 17 سال سے پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف صف اول کے ملک کا کردار ادا کرتے ہوئے خطہ سے دہشت گردی کے ناسور کے خاتمہ کیلئے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے جس کو دنیا کے اہم ممالک قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

بدھ کو اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف پختہ عزم کے باعث القاعدہ جیسی دہشت گردی تنظیموں کا خاتمہ ممکن ہو ا جو پوری دُنیا کے امن کیلئے ایک مستقل خطرہ تھیں۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر نے کہا کہ آج امریکہ جس مالی وفوجی امداد کو بند کرنے کی باتیں کرتا ہے اس ضمن میں امریکہ کو یہ پتا ہونا چاہئیے کہ گزشتہ 17 سال سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سوارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھا چکا ہے اور اسی طرح فوجی و سویلین شہادتوں کی تعداد بھارت سے 65ء اور 71ء میں ہونے والی جنگوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی امداد کی بجائے اپنے قومی مفاد اور خطہ کی دیرپا امن وسلامتی کیلئے جاری رکھے ہوئے ہے اور جو جانی و مالی نقصان پاکستان کی عوام اور افواج نے اٹھایا ہے اس کے مقابلہ میں بین الاقوامی امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے اور خطے اور دُنیا کے امن میں اپنا کردار ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے لیکن ایسے میں اس قسم کے بیان پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی حوصلہ شکنی کرنے کے مترادف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کو پاکستان پر الزام تراشی کی بجائے افغانستان میں اپنی ناکام حکمت عملی کا حقیقت پر مبنی ازسرنو جائزہ لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی 17 سال کی ناکامیوں کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دینا کسی صورت میں درست پالیسی نہیں ہے۔ انہوںنے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن کا قیام پاکستان کی خوشحالی اور معاشی ترقی کیلئے ناگزیر ہے اور جس کے قیام کیلئے پاکستان نے ہمیشہ مخلصانہ کوششیں کی ہیں۔

انہوںنے کہا کہ پاکستان کی جانب سے اس زیادہ قربانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ پچھلے چار دہائیوں سے پاکستان 30 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہے مزید یہ کہ سرحدی علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں تعاون کی بجائے سرحد پار سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے بھارت جیسے دُشمن ملک سے مل کر پلان تیار کئے جاتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ ایک ذمہ دار ملک کا کردار ادا کیا ہے اور سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے باڑ لگانے اور چوکیاں بنانے جیسے منصوبوں پر کام شروع کیا ہے جس کیلئے افغانستان کی طرف سے بھی بھرپور معاونت کی اشد ضرورت ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ امریکہ کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ افغانستان میں بھارت کے کردار کو وسیع کرنے سے بداعتمادی میںاضافہ ہو گا بلکہ پاکستان کے عوام اس کو اپنے خلاف ایک سازش تصور کرتے ہیں جس کے تحت ایک طرف بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنا غیر قانونی تسلط قائم رکھنا چاہتا ہے اور دوسری جانب پاکستان اور اس پورے خطے کی خوشحالی کے 60 ارب ڈالرسے زائد گیم چینجر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کوناقابل تسخیر بنانے کی بنیاد ہے جس پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں ہے اور ان دونوں ایشوز پر پاکستان کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا۔ انہوںنے کہاکہ بین الاقوامی برادری کو یہ جان لینا چاہیے کہ جنوبی ایشیا ء میں اُس وقت تک پائیدارامن قائم نہیں ہو سکتا جب تک مسئلہ کشمیر کا حل او ر افغانستان میں ایک پائیدار سیاسی حل عمل میں نہیں لایا جاتا۔ انہوںنے واضح کیا کہ بین الاقوامی تعلقات میں نہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ کوئی مستقل دُشمن بلکہ ہر ریاست کو اپنے قومی مفاد عزیز ہوتے ہیں اور پاکستان اپنے قومی مفاد میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھے گا اور بین الاقوامی برادری کو اس جنگ میں پاکستان کا ساتھ دینا چاہئے۔