پاکستان کے ساتھ معمول کا کاروبار ختم‘: امریکا کی وارننگ

امریکا حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں اور ان گروہوں کا ساتھ دینے والے پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرسکتا ہے، ترجمان قومی سلامتی کونسل

بدھ 23 اگست 2017 15:41

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 اگست2017ء) امریکا کی جانب سے افغانستان، پاکستان اور جنوب ایشیائی خطے کے لیے نئی اور پہلے سے سخت پالیسی کے اعلان کے امریکا کے قومی سلامتی کونسل کے ترجمان مائیکل اینٹن نے بھی پاکستان کو خبردار کردیا۔امریکی ویب سائٹ پولیٹیکو کی رپورٹ کے مطابق ترجمان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’اب تک پاکستان کے ساتھ معاملات جس طرح جاری تھے وہ ختم ہوگئے ہیں‘ اور امریکا حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں اور ان گروہوں کا ساتھ دینے والے پاکستانی حکام پر پابندیاں عائد کرسکتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اعلان کردہ نئی پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال سے پاکستانی حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ انہیں صدر اور انتظامیہ نے نوٹس دے دیا ہے‘۔

(جاری ہے)

مائیکل اینٹن نے دعویٰ کیا کہ ’طویل عرصے سے امریکا پاکستان کے ساتھ نہایت صبر سے پیش آتا رہا ہے، تاہم ہمیں ان سے اس کا کوئی خاص فائدہ موصول نہیں ہورہا‘۔یاد رہے کہ گذشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں مزید ہزاروں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کی راہ ہموار کرتے ہوئے امریکا کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کے وعدے سے مکر گئے تھے جبکہ انہوں پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کا الزام بھی ایک بار پھر دہرادیا تھا۔

امداد میں کمی کی دھمکی دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے اٴْن ہی دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جن کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے‘۔پاکستان کو ملنے والی امریکی امداد پر بات کرتے ہوئے ترجمان کا کہنا تھا کہ امداد کے بدلے میں امریکا کو پاک افغان سرحدی علاقوں سے سرحد پار دہشت گردی اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر کوئی کارروائی دیکھنے کو نہیں ملتی۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ پاکستان دہشت گرد گروہوں کی ’فعال اور براہ راست حمایت‘ کا ذمہ دار ہے۔ترجمان امریکی سلامتی کونسل نے بھارت اور افغانستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر اسلام آباد کی تشویش کو ’بہانہ‘ قرار دے کر خارج کردیا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’بھارت جو افغانستان میں جو کررہا ہے وہ پاکستان کے لیے خطرہ نہیں، بھارت فوجی بیس قائم نہیں کررہا، اپنے فوجی تعینات نہیں کررہا، ایسا کچھ نہیں کررہا جس پر پاکستان شکایت کرے‘۔

ساتھ ہی پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس بات کا فیصلہ کرے کہ اس کے لیے دہشت گردوں کا اتحادی بننا، انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنا زیادہ اہم ہے یا امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات‘۔انہوں نے خبردار کیا کہ ’پاکستان اپنی پسند کا انتخاب کرے اس کے بعد ہم پاکستان کی پسند کے مطابق اپنا انتخاب کریں گے‘۔