مقبوضہ کشمیر میں پر تشدد نہیں جمہوری وریاستی تحریک چل رہی ہے،بیرسٹر سلطان

ٹرمپ اور مودی کی طرف سے صلاح الدین اور حزب المجاہدین کو دہشتگرد قرار دینا مناسب نہیں، امریکی صدر نے خود اور اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے بھی کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے کشمیریوں کے لئے یہ امید کی کرن بھی ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر حل کرانے میں مدد گار ثابت ہو گا ہم توقع رکھتے ہیں صدر ٹرمپ جنوبی ایشیاء پر اپنی پالیسی میں ذہن میں رکھیں گے کہ جنوبی ایشیاء میں امن کی کنجی مسئلہ کشمیر کے حل میں ہے اور مسئلہ افغانستان کا حل بھی اسی میں مضمر ہے، واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ میں سیاسی امور کے انچارج عارون شوبیل اور انکے معاون سے ملاقات

منگل 22 اگست 2017 19:29

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 اگست2017ء) آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم و پی ٹی آئی کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں پر تشدد نہیں بلکہ ایک جمہوری وریاستی تحریک چل رہی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مودی کی طرف سے کمانڈر صلاح الدین اور حزب المجاہدین کو دہشتگرد قرار دینا مناسب نہیں کیونکہ کشمیری عوام مقبوضہ کشمیر میں بھارتی گولیوں کا جواب صرف نعروں یا پتھروں سے دیتے ہیں اور اب تو اسکولوں اور کالجوں کی بچیاں بھی سڑکوں پر احتجاج کے لئے نکل آئی ہیں۔

جبکہ بھارت خود بھی یہ نہیں کہتا کہ یہ دہشتگردی کی تحریک ہے امریکی صدر نے خود اور اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے بھی کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے اسلئے کشمیریوں کے لئے یہ ایک امید کی کرن بھی ہے کہ امریکہ مسئلہ کشمیر حل کرانے میں مدد گار ثابت ہو گا۔

(جاری ہے)

ہم توقع رکھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ جو آج رات جنوبی ایشیاء پر اپنی پالیسی کا اعلان کریں گے تو یہ ذہن میں رکھیں گے کہ جنوبی ایشیاء میں امن کی کنجی مسئلہ کشمیر کے حل میں ہے اور مسئلہ افغانستان کا حل بھی اسی میں مضمر ہے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے یہاں واشنگٹن میں امریکی وزارت خارجہ( اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ )میں سیاسی امور کے انچارج عارون شوبیل(Aaron Schwoebel) اور انکے معاون سے ایک گھنٹے کی تفصیلی ملاقات میں کیا۔ یا د رہے کہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی اس ملاقات کی اہمیت اسلئے لئے بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ آج رات امریکی صدر ٹرمپ نے جنوبی ایشیاء کے لئے اپنی پالیسی کا اعلان کرنا ہے اور اسی روز سپہ پہر کو بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اعلی امریکی حکام سے ملاقات کرکے ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کا موقف پیش کیا۔

اس موقع پر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے امریکی وزارت خارجہ کے سیاسی امور کے اعلی عہدیداران کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کشمیری گذشتہ ستر سال سے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لئے کوشاں ہیں اب جبکہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی عروج پر پہنچ چکی ہے تو برہان وانی کی شہادت کو 114 دن گزرنے کے باوجود بھی کشمیری عوام مقبوضہ کشمیر میں جمہوری و ریاستی تحریک جا ری رکھے ہوئے ہیں اور اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم بند کرانے کے لئے امریکی وزارت خارجہ اپنا کردار ادا کرے گی۔

لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو رہا۔ اسلئے کشمیریوں کو امید دلانے کی ضرورت ہے۔ میں امریکی وزارت خارجہ سے کہوں گا کہ وہ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے ناطے اپنا کردار ادا کرے اور جنوبی ایشیاء میں چونکہ اسکے مفادات بھی وابستہ ہیں لہذا وہ مسئلہ کشمیر حل کرانے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالی کو رکوانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے اور امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت شروع کرانے کے لئے بھی اپنا کردار ادا کرے کیونکہ دونوں ممالک کی افواج آمنے سامنے کھڑی ہیں دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں اور دونوں کے درمیان کوئی بھی چھوٹا یا بڑا حادثہ ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے جوکہ پوری دنیا کے امن کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

لہذا کشمیری عوام جو مسئلہ کشمیر کے اصل اور اہم فریق ہیں انہیں بھی سہ فریقی مذاکرات میں شامل کیا جائے اور اسی طرح امریکہ انٹراء کشمیر ڈائیلاگ کا اہتمام بھی کرے۔ تاکہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان پل کاکردار ادا کر سکیں۔بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا کہ میں خود بھی ہر فورم پر جاکر ڈیڑھ کروڑ کشمیر عوام کو موقف پیش کر رہا ہوں اور میں اس سلسلے میں امریکی وزارت خارجہ کا مشکور ہوں کہ وہ وقتاً فوقتاً میرا موقف سنتے رہتے ہیں اور آج بھی اآپ نے میرا موقف ایک ایسے موقع پر سنا جبکہ امریکی صدر ٹرمپ اپنی سائوتھ ایشیاء پر پالیسی کا اعلان کر رہے ہیں۔

تو میرے توسط سے جو کہ کشمیریوں کا کشمیریوں کو موقف ہے آپ لوگ سنتے ہیں۔ لہذا مقبوضہ کشمیر کے قائدین تو باہر نہیں آسکتے اگرچہ وہ بہتر انداز میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر اپنا موقف پیش کر سکتے ہیں تاہم میں انکی نمائندگی کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ کو مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر بریفنگ دے رہا ہوں۔ میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ کشمیری امن چاہتے ہیں اور ہر دہشتگردی کے خلاف ہیں ۔ لہذا امریکی وزارت خارجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے ریاستی دہشتگردی کی مزمت کرے۔ راٹھور