پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس : موٹروے پولیس اور آئی ایس آئی کے مابین اسلحہ خریداری کی تحقیقات کا مطالبہ مسترد

ن لیگ کے سینیٹر چوہدری تنویر کا شدید احتجاج، اجلاس سے واک آئوٹ کر گئے اس معاملے پر قومی خزانے کو کوئی نقصان نہیں ہوا،سینیٹر مشاہد حسین سید موٹروے پولیس کے اہلکاروں کی وردی خریداری میں2کروڑ101 لاکھ روپے کرپشن سکینڈل کی بازگشت پی اے سی تک پہنچ گئی،ایک ماہ میں تحقیقات کا مطالبہ

منگل 22 اگست 2017 19:25

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 اگست2017ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں موٹروے پولیس اور آئی ایس آئی کے مابین اسلحہ خریداری ڈیل کی تحقیقات کا مطالبہ حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر نے کیا ہے،پی اے سی کے اجلاس کی صدارت کرنے والے سینیٹر مشاہد حسین سید نے یہ مطالبہ مسترد کردیا اور کہا کہ قومی خزانہ کو اس معاملہ پر کوئی نقصان نہیں ہوا ،تحقیقات نہ کرانے پر سینیٹر چوہدری تنویر نے شدید احتجاج کیا اور اجلاس سے واک آؤٹ کرگئے،جاتے ہوئے کہا کہ سب لوگ آئی ایس آئی سے ڈرتے ہیں،مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی نے موٹروے ائیرفورس کے لڑاکا طیاروں کی ہنگامی لینڈنگ کرنے پر موٹروے کو ہونے والے مالی نقصانات کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں،موٹروے پولیس نے ایمرجنسی میں آئی ایس آئی سے ایک کروڑ12لاکھ روپے کا اسلحہ خریدا تھا اسلحہ میں ایس ایم جی بندوقیں اور گولیاں شامل تھیں۔

(جاری ہے)

پی اے سی کا اجلاس سینیٹر مشاہد حسین سید کی زیرصدارت میں ہوا جس میں وزارت مواصلات کے مالی سال2014-15ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا،اجلاس میں موٹروے پولیس کے اہلکاروں کی وردی خریداری میں مبینہ طور پر 2کروڑ19لاکھ روپے کرپشن کا سکینڈل کی بازگشت بھی سنی گئی۔پی اے سی نے اس سکینڈل کی تحقیقات ایک ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔اجلاس میں کہا گیا ہے کہ پوسٹل ادارہ کو ری سٹرکچرنگ کیا جارہا ہے۔

موٹروے پولیس اہلکاروں کی وردی خریداری میں2کروڑ19لاکھ روپے کرپشن سکینڈل کی انکوائری ایک ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے،وردی کے کپڑا کی کوالٹی بھی غیر معیاری تھی جبکہ قیمتوں اور کوالٹی کے علاوہ کم کپڑا بھی فراہم کیا گیا ہے۔پی اے سی اراکین نے پوچھا آیا کہ سکینڈل کے ذمہ دار افسران زندہ ہیں یا فوت ہوگئے ہیں صرف انکوائری پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا۔

آئی جی شوکت حیات نے کہا ملزمان موجود ہیں،یہ کپڑا لاہور کی کمپنی خواجہ ناصر الدین اینڈ سنز سے خریدا گیا،لیبارٹری ٹیسٹ میں کپڑا غیر معیاری نکلا تھا۔شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ آڈٹ حکام انکشاف نہ کرتے تو موٹروے پولیس سربراہ اور وزارت مواصلات لمبی تان کر سوگئے تھے اب مزید انکوائری کی کیا ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ انکوائری نہیں بلکہ ذمہ دار افسران سے ریکوری کی جائے۔

یہ سکینڈل2013ء میں ہوا اب2017ء میں انکوائری ہورہی ہے،راجہ جاوید اخلاص نے کہا پنجاب پولیس کی وردی بھی تبدیل ہوئی ہے،آڈٹ حکام کرپشن کرنے والے پنجاب حکومت کے افسران پر بھی نظر رکھیں۔پی اے سی اجلاس میں موٹروے پولیس کا دوسرا کرپشن سکینڈل ڈیڑھ کروڑ روپے تھا،2013ء میں آئی جی موٹروے پولیس نے اہلکاروں کی فلاح وبہبود فنڈز سے گھروں کی مرمت پر خرچ کردیاگیا۔

شیخ روحیل اصغر نے پوچھا کہ موٹروے پر ایک مشق کی گئی ہے اس کے آحراجات وزارت دفاع اٹھائے گی یا وزارت مواصلات:عاشق گوپانگ نے کہا موٹروے والے نجومی نہیں کہ وہ پی سی ون تیار کئے بغیر کروڑوں روپے خرچ کردیتے۔مشاہد حسین سید نے کہا موٹروے نے نظریہ ضرورت کے تحت یہ فنڈز خرچ کئے۔عاشق گوپانگ نے کہا نظریہ ضرورت ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہونا چاہئے۔

آڈیٹر جنرل نے کہا کہ اچھا کام کو علط طریقہ سے کرنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔چیئرمین این ایچ اے نے کہا ائیرفورس کے لڑاکا طیارے ہرسال موٹروے پر ایمرجنسی لینڈنگ کرتے ہیں،25 ملین روپے حکومت نے اخراجات برداشت کئے ہیں۔شیخ روحیل اصغر نے کہا نیشنل ہائی ویز اتھارٹی غلط خرچ کررہی ہے اس اخراجات پر اعتراض ضرور آئے گا۔پی اے سی اجلاس میں انکشاف ہوا کہ موٹروے پولیس والوں نے تربیت اداروں کو کمرشل ادارہ میں تبدیل کیا اور ڈرائیوروں کو تربیت دینے سے ایک کروڑ 13لاکھ روپے وصول کرلئے جو کہ غیر قانونی اقدام ہے۔

سیکرٹری مواصلات نے کہا اچھی سوچ کے ساتھ یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔پی اے سی میں انکشاف ہوا ہے کہ موٹروے پولیس نے ایک کروڑ13لاکھ روپے کے ہتھیار اور بارود آئی ایس آئی سے خریدا تھا حالانکہ موٹروے پولیس کو یہ ہتھیار پی او ایف سے خریدنے تھے۔چوہدری تنویر نے کہا میرے لئے یہ اچھنبے کی بات ہے کہ آئی ایس آئی سے اسلحہ خریدا گیا۔سیکرٹری نے کہا اسلحہ پی او ایف کے پاس نہیں تھا اس لئے یہ آئی ایس آئی سے خریدا تھا انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ حقیقت ہے کہ آئی ایس آئی اسلحہ بنانے والے ادارہ نہیں ہے اس خریداری میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی ہوئی ۔

چوہدری تنویر نے کہا کہ آئی ایس آئی اسلحہ سپلائی کا مجاز ادارہ ہے،آئی جی موٹروے نے کہا کہ اس بات کا جواب نہںی دے سکتے کہ آئی ایس آئی اسلحہ دے سکے۔مشاہد حسین سید نے کہا ہوسکتا ہے کہ افغان جنگ کا اسلحہ بچا پڑا ہو۔چوہدری تنویر نے کہا کہ بات اصول کی ہے کہ جن افسران نے یہ ڈیل کی تھی وہ مجاز تھے یا نہیں۔آئی ایس آئی والوں نے کم ریٹ پر ایس این جی اور دیگر اسلحہ دیا تھا۔

چوہدری تنویر نے اس معاملہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا لیکن مشاہد حسین سید نے یہ مطالبہ مسترد کردیا جس پر چوہدری تنویر نے کہا کہ لوگ آئی ایس آئی سے ڈرتے ہیں اور بعد میں احتجاجاً اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔انہوںنے باربار مطالبہ کیا کہ واقعہ کی تحقیقات ہونی چاہئیں لیکن مشاہد حسین سید نے معاملہ کو نمٹا دیا۔پی اے سی میں انکشاف ہوا ہے کہ پوسٹل سروسز میں 7کروڑ80لاکھ کرپشن کرنے پر87افراد کو ملازمتوں سے فارغ کیا گیا تھا جبکہ29افسران کو شوکاز نوٹس جاری کئے گئے تھے اب یہ مقدمہ نیب کے پاس ہے۔

آڈیٹر جنرل نے کہا فراڈ کے مقدمات اس ادارہ میں بڑے عام ہیں اس کو کنٹرول کرنے کیلئے انتظامیہ کو سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔گزشتہ سال قرضے اتارنے کے نام پر شاہراہوں کیلئے چوتھی قسط وزارت خزانہ نے جاری ہی نہیں کی تھی،2.3ارب روپے اس منصوبہ کی مرمت کے منصوبوں کیلئے جاری ہی نہیں کئے تھے۔پوسٹ آفس کی سروسز جاری ہیں بہتری لارہے ہیں بالخصوص پنشنرز کو مزید سہولت دی جارہی ہے۔

سیکرٹری مواصلات نے کہا پوسٹ آفس کو بند نہیں بلکہ اس قومی ادارہ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے بالخصوص دیہاتوں میں اس کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے۔ڈاکخانہ میں اصلاحات لانے کا پروگرام بنالیا ہے اس پر جلد عمل کرکے ادارہ بہتر بنائیں گے۔ای سٹرکچرنگ منصوبہ وزیراعظم نے منظور کرلیا ہے اس ادارہ کے 12ہزار ڈاکخانے اور48ہزار ملازمین ہیں۔