اشفاق احمد کی 92ویں سالگرہ منائی گئی

منگل 22 اگست 2017 17:01

اشفاق احمد کی 92ویں سالگرہ منائی گئی
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 اگست2017ء) اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار، ڈراما نویس ، ناول نگار، مترجم اور براڈ کاسٹر اشفاق احمد کی 92ویں سالگرہ منگل کو منائی گئی ۔ اشفاق احمد خان ہندوستان کے شہر ہوشیار پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں خان پور میں ڈاکٹر محمد خان کے گھر 22 اگست 1925ء کو پیدا ہوئے اشفاق احمد کی پیدائش کے بعد اٴْن کے والد ڈاکٹر محمد خان کا تبادلہ خان پور (انڈیا) سے فیروز پور ہوگیا۔

اشفاق احمد نے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز اسی گائوں فیروز پورسے کیا۔ فیروز پور کے ایک قصبہ مکستر سے میٹرک اور ایف۔ اے کا امتحان ’’رام سکھ داس ‘‘ سے پاس کیا۔ اس کے علاوہ بی۔اے کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ فیروز پور کے ’’آر، ایس ،ڈی ‘‘ کالج سے پاس کیا۔

(جاری ہے)

قیام پاکستان کے بعد اشفاق احمداپنے خاندان کے ہمراہ فیروز پور (بھارت) سے ہجرت کرکے پاکستان آ گئے۔

پاکستان آنے کے بعد اشفاق احمد نے گورنمنٹ کالج لاہور کے ’’شعبہ ارد و ‘‘ میں داخلہ لیا۔ جہاںکل چھ طلباء و طالبات زیر تعلیم تھے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا، اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے، اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈکاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔

اشفاق احمد نے نے دیال سنگھ کالج، لاہور میں دو سال تک اردو کے لیکچرر کے طور پر کام کیا اور بعد میں روم یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوگئے۔وطن واپس آکر انہوں نے ادبی مجلہ داستان گو جاری کیا جو اردو کے آفسٹ طباعت میں چھپنے والے ابتدائی رسالوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے دو سال ہفت روزہ لیل و نہار کی ادارت بھی کی۔وہ 1967ء میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہوگیا۔

1989ء تک وہ اس ادارے سے وابستہ رہے۔ ضیاء الحق کے دور میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی مقرر کیے گئے۔ اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے۔ 1953ء میں ان کا افسانہ گڈریا ان کی شہرت کا باعث بنا۔ انہوں نے اردو میں پنجابی الفاظ کا تخلیقی طور پر استعمال کیا اور ایک خوبصورت شگفتہ نثر ایجاد کی جو ان ہی کا وصف سمجھی جاتی ہے۔

اردو ادب میں کہانی لکھنے کے فن پر اشفاق احمد کو جتنا عبور تھا وہ کم لوگوں کے حصہ میں آیا۔ ایک محبت سو افسانے اور اجلے پھول ان کے ابتدائی افسانوں کے مجموعے ہیں۔ بعد میں سفردر سفر (سفرنامہ) ، کھیل کہانی (ناول) ، ایک محبت سو ڈرامے (ڈراما سیریز) اور توتا کہانی (ڈراما سیریز) ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔ 1965ء سے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پروگرام تلقین شاہ کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور دومعنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا اور تیس سال سے زیادہ چلتا رہا۔

ستر کی دہائی کے شروع میں اشفاق احمد نے معاشرتی اور رومانی موضوعات پر ایک محبت سو افسانے کے نام سے ایک ڈراما سیریز لکھی اور اسی کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی۔ توتا کہانی اور من چلے کا سودا میں وہ تصوف کی طرف مائل ہوگئے ۔ اشفاق احمد اپنے ڈراموں میں پلاٹ سے زیادہ مکالمے پر زور دیتے تھے اور ان کے کردار طویل گفتگو کرتے تھے۔

کچھ عرصہ سے وہ پاکستان ٹیلی وژن پر زاویہ کے نام سے ایک پروگرام کرتے رہے جس میں وہ اپنے مخصوص انداز میں قصے اور کہانیاں سناتے تھے۔ وہ 7 ستمبر، 2004ء کو جگر کی رسولی کی وجہ سے انتقال کرگئے تھے ۔ اشفاق احمد کی سالگرہ کے موقع پر مختلف ادبی اورسماجی تنظیموں کی جانب سے پروگرام منعقد کئے گئے جن میں مرحوم کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔