یوٹیلٹی سٹورز‘ سستے بازاروں اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کمزور طبقات کی مدد کی جارہی ہے‘

زرعی پیکیج کی وجہ سے کھاد اور کیڑے مار ادویات کی قیمتوں میں کمی اور پیداوار میں اضافہ ہوا ہے‘ صوبوں کو اس معاملے پر سیاست کرنے کی بجائے وفاق سے تعاون کرنا چاہیے‘ خیبر پختونخوا حکومت، وفاقی حکومت کی بجائے نجی شعبے سے گندم خرید رہی ہے وفاقی وزیر قومی تحفظ خوراک سکندر حیات بوسن کا گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان کو دنیا کی11 سب سے زیادہ بھوک والے ممالک میں شامل کرنے کے معاملے پر تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے خطاب غربت اور افلاس کے مسئلے کا فوری حل نکالنا ضروری ہے‘ سماجی ناانصافی غربت کی بڑی وجہ ہے‘ تعلیم‘ صحت کی سہولیات اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی طرف حکومت کو توجہ دینی چاہیے ارکان سینٹ

پیر 21 اگست 2017 23:53

یوٹیلٹی سٹورز‘ سستے بازاروں اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 21 اگست2017ء) وفاقی وزیر قومی تحفظ خوراک سکندر حیات بوسن نے کہا ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز‘ سستے بازاروں اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کمزور طبقات کی مدد کی جارہی ہے‘ زرعی پیکیج کی وجہ سے کھاد اور کیڑے مار ادویات کی قیمتوں میں کمی اور پیداوار میں اضافہ ہوا ہے‘ صوبوں کو اس معاملے پر سیاست کرنے کی بجائے وفاق سے تعاون کرنا چاہیے‘ خیبر پختونخوا حکومت وفاقی حکومت کی بجائے نجی شعبے سے گندم خرید رہی ہے جبکہ ارکان سینٹ نے کہا ہے کہ غربت اور افلاس کے مسئلے کا فوری حل نکالنا ضروری ہے‘ سماجی ناانصافی غربت کی بڑی وجہ ہے‘ تعلیم‘ صحت کی سہولیات اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی طرف حکومت کو توجہ دینی چاہیے۔

پیر کو گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان کو دنیا کے گیارہ سب سے زیادہ بھوک والے ممالک میں شامل کرنے کے معاملے پر جاری تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق پاکستان کا شمار غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

خوراک بہتر نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی اموات بڑھ رہی ہیں۔ سکولوں میں داخلے کی شرح کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدعنوانی نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ تعلیم‘ صحت کی سہولیات اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بیروزگاری میں اضافے سے غربت اور افلاس میں اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت کو ان مسائل کے حل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ دیہی علاقوں میں غربت زیادہ ہے اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔

کراچی جیسے شہر میں 40 فیصد کھانا ضائع چلا جاتا ہے۔ سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ غربت اور افلاس کے مسئلے کا فوری حل نکالنا ضروری ہے۔ سماجی ناانصافی غربت کی بڑی وجہ ہے۔ غریب اور امیر کے درمیان فرق بڑھتا جارہا ہے۔ 38 فیصد بچے غیر معیاری خوراک کی وجہ سے ہر سال فوت ہو جاتے ہیں۔ سینیٹر عتیق شیخ نے کہا کہ غربت کا خاتمہ حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

جب تک ہم اس کو اپنی پہلی ترجیح نہیں بنائیں گے معاشرے میں مساوات قائم نہیں ہو سکتی۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ استحصالی اور طبقاتی نظام کا خاتمہ کئے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ پاکستان وسائل سے مالامال ہے صرف بہتر پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اعظم سواتی نے کہا کہ آئین عوام کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ غربت‘ بیروزگاری اور دیگر مسائل کا خاتمہ آئین پر عمل کرنے سے ہی ہو سکتا ہے۔

سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ غربت اور افلاس کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن ان کے خاتمے کی طرف کوئی پیشرفت نظر نہیں آتی۔ بلوچستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سب سے غریب ترین صوبہ ہے اسی طرح فاٹا اور دیگر علاقوں میں بھی غربت کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات درپیش ہیں۔ لاکھوں ایکڑ زمین بنجر پڑی ہے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ غربت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے‘ حکومت کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

زرعی شعبہ پہلے ہی بدحالی کا شکار ہے۔ جب تک زرعی پیداوار میں اضافہ اور زرعی شعبے میں خودکفالت کی طرف ہم نہیں بڑھیں گے غربت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ غربت کے خاتمے کے لئے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ ہماری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن غربت کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے وسائل ناکافی ہیں۔

سینیٹر ایم حمزہ نے کہا کہ جب تک زرعی شعبہ ترقی نہیں کرے گا ملک معاشی لحاظ سے خوشحال نہیں ہو سکتا۔ سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ہمارے بچے آج بھی بنیادی غذائیت سے محروم ہیں۔ پاکستان کبھی گندم اور چاول کی پیداوار میں خودکفیل ہوا کرتا تھا ‘ آج صورتحال سب کے سامنے ہیں۔ پچاس فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی سکندر حیات بوسن نے کہا ہے کہ حکومت نے زرعی شعبے کی ترقی کے لئے بڑا پیکج دیا ہے جس کی وجہ سے گندم ‘ چاول ‘ مکئی اور آلو کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ غربت میں کمی آئی ہے‘ اٹھارہویں ترمیم کے بعد کافی معاملات صوبوں کے پاس ہیں جن میں زرعی شعبہ بھی شامل ہے۔ رابطے کی کمی کی وجہ سے نچلی سطح تک جو ریلیف پہنچنا چاہیے تھا وہ نہیں پہنچ رہا۔

خیبر پختونخوا حکومت وفاقی حکومت کی بجائے نجی شعبے سے گندم خرید رہی ہے۔ ہمارے پاس گندم کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔ کے پی کے اور بلوچستان ہم سے گندم نہیں لے رہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم زراعت پر سبسڈی نہیں دے سکتے۔ سندھ اور خیبر پختونخوا کی طرف سے اس سلسلے میں بھجوائے جانے والے موجود ہیں۔ دونوں صوبے کسانوں کا خیال نہیں کر رہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں زرعی شعبے کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ طے شدہ قیمت ہم نیچے نہیں لاسکتے۔ زرعی پیکج کی وجہ سے کھاد ‘ کیڑے مار ادویات اور دیگر اشیاء کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔ پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ صوبوں کو اس معاملے پر سیاست کرنے کی بجائے وفاق سے تعاون کرنا چاہیے۔ یوٹیلٹی سٹورز‘ سستے بازاروں اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے بھی کمزور طبقات کی مدد کی جارہی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم ہم نے تین ہزار سے بڑھا کر چار ہزار 834 روپے کردی ہے۔