Live Updates

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پانامہ لیکس کیس کے حوالے سے عدالتی فیصلہ چیلنج کرتے ہوئے سپریم کور ٹ میں نظرثانی کی پٹیشن دائر کر دی

نظرثانی کی درخواست میں عمران خان، نیب، ایف بی آر، سیکرٹری قانون و انصاف ڈویژن اور سیکرٹری داخلہ کو فریق بنایاگیا ہے 28 جولائی 2017ء کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیا جائے اور نظرثانی کی درخواست پر حتمی فیصلہ ہونے تک عدالتی فیصلہ پرعملدرآمد پر حکم امتناعی جاری کیا جائے، عدالت سے استدعا

پیر 21 اگست 2017 22:16

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پانامہ لیکس کیس کے حوالے سے عدالتی فیصلہ  چیلنج ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 اگست2017ء) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے پانامہ لیکس کیس کے حوالے سے عدالتی فیصلہ چیلنج کرتے ہوئے سپریم کور ٹ میں نظرثانی کی پٹیشن دائر کر دی ہے۔ پیرکو ایڈووکیٹ شاہد حامد کے ذریعے دائر نظرثانی کی درخواست میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، نیب، ایف بی آر، سیکرٹری قانون و انصاف ڈویژن اور سیکرٹری داخلہ کو فریق بناتے ہوئے عدالت سے استدعاکی گئی ہے کہ 28 جولائی 2017ء کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیا جائے اور نظرثانی کی اس درخواست پر حتمی فیصلہ ہونے تک عدالتی فیصلہ پرعملدرآمد کے بارے میں حکم امتناعی جاری کیا جائے۔

یاد رہے کہ عدالت اپنے فیصلہ میں قومی احتساب بیورو (نیب )کو معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثے اور سرمایہ رکھنے پر وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دے چکی ہے۔

(جاری ہے)

سینیٹر اسحاق ڈار نے دائرکی گئی نظرثانی کی درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ عدالت کی جانب سے 28 جولائی کا فیصلہ تمام ریکارڈ کا جائزہ لئے بغیر دیا گیا ہے، دوسری جانب مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے بھی اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا، درخواست گزار کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ کے حوالے وکلاء کے دلائل کے دوران صرف تین جج صاحبان نے کیس کی سماعت کی جبکہ حتمی حکم نامہ پانچ ججوں نے جاری کیا ہے جن میں وہ دو جج صاحبان بھی شامل ہیں جنہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ پر دلائل کی سماعت نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے اس سلسلے میں درخواست گزار کے اعتراضات پر کسی طرح کاغور کیا۔

نظرثانی کی درخواست میں کہا گیاہے کہ 28 جولائی کے فیصلہ پر عملدرآمد کی نگرانی سے متعلق عدالت عظمیٰ کا حتمی آرڈر اور نیب کی جانب سے ریفرنس دائر کر نے اور سپریم کورٹ کے ایک جج کی جانب سے احتساب عدالت کی کارروائی کی نگرانی کرنا آئین کے آرٹیکل 175 (2) (3) و 203 اور دیگر شقوں کی خلاف ورزی ہے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلے میں درخواست گزار کے بارے میں جے آئی ٹی کو کوئی ہدایت نہیں دی گئی تھی۔

لیکن جے آئی ٹی نے درخواست گزار کے اثاثوں ،کہ وہ معلوم آمدن سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں، کے بارے میں رائے دے کر اپنے مینڈیٹ سے واضح تجاوز کیا ہے ، درخواست میں مزید کہا گیاہے کہ جے آئی ٹبی کودرخواست گزار کے 1983ء سے 2016ء تک 2002-03 بشمول 2007-08ء کے انکم اور ویلتھ ٹیکس گوشواروں کا مکمل ریکارڈ فراہم کیا گیا۔ جبکہ نیب اس سے قبل بھی درخواست گزار اور ان کی اہلیہ کے 1985ء سے 2007ء تک 22 سالہ ٹیکس ریکارڈ کا جائزہ لے چکا ہے جس میں اسے ظاہر کردہ ذرائع آمدن سے زائد اثاثوں کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا تھا جس کی بناء پر انکوائری بند کر دی گئی تھی، لہٰذا یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ جے آئی ٹی کی اس جعلی رپورٹ کی روشنی میں درخواست گزار کیخلاف اس بنیاد پرکس طرح ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہے کہ درخواست گزار نے متعلقہ ریکارڈ فراہم نہیں کیا درخواست میں اس امر کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ درخواست گزار نے عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کے تقاضوں کے مطابق 2002-03ء تا 2007-08ء تک اپنے تمام اثاثہ جات ( ملکی وغیرملکی) الیکشن کمیشن میں ڈیکلیئر کئے ہیں ۔

واضح رہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پانامہ لیکس کا فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو حکم دیا تھا کہ جے آئی ٹی کی طرف سے جمع کئے گئے مواد اورریکارڈ کی بنیاد پر سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بچوں اور دیگر کے خلاف راولپنڈی، اسلام آباد کی احتساب عدالتوں میں 6 ہفتوں کے اندر ریفرنس دائر کئے جائیں، یہاں یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف بھی عدالتی فیصلہ پرنظرثانی کیلئے تین مختلف درخواستیں دائر کرچکے ہیں۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات