قانون نافذکرنے والے اداروں کی کارکردگی مایوس کن ہے،مولانافضل الرحمان

دہشت گردی کیخلاف کامیابی کے دعوے حقیقت کے برعکس ہیں،حکومت کی جانب سے کسی قسم کا تحفظ اور امداد تک میسر نہیں،صحافیوں سے گفتگو

پیر 21 اگست 2017 18:03

قانون نافذکرنے والے اداروں کی کارکردگی مایوس کن ہے،مولانافضل الرحمان
ڈیرہ اسماعیل خان(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اگست2017ء)جمعیت علماء اسلام ف کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کامیابی کے دعوئے حقیقت کے برعکس ہیں ان اداروں کو ملنے والی 5فیصد کامیابی مذہبی جماعتوں اور دینی مدارس کی جانب سے امن کی کوششوں میں بھر پور تعاون کا نتیجہ ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ عید گاہ کلاں میں مولاناحماد اللہ کے بیٹے حافظ عباد اللہ فاروق کی وفات پر فاتحہ خوانی کر نے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کر تے ہوئے کیا واضح رہے کہ حافظ عباد اللہ فاروق ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہوئے تھے اس موقع پر سابق ایم پی اے عبدالحلیم خان قصوریہ ڈسٹرکٹ ممبر ملک مشتاق احمد ڈار حافظ عبدالمجید گوگا خیل سمیت دیگر علماء اکابرین و جماعتی عہدیداران موجود تھے ۔

(جاری ہے)

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کا عفریت معاشرے میں اہم شخصیات اور محب وطن بے زرر شہریوں کو نگل رہا ہے اور اس سلسلے میں قانون نافذکرنے والے اداروں کی کارکردگی مایوس کن ہے ۔دہشتگردوں کے خلاف جنگ قومی چیلنج بن چکا ہے ڈیرہ اسماعیل خان میں گزشتہ چند دنوں سے ایک بار پھر دہشتگردوں کے نشانے پر شہریوں کا تحفظ بنیادی مسئلہ ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشتگردوں کے خلاف ٹاسک لینے کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں شھر میں امن ہمارے صلح کی کوششوں کی بدولت انتظامیہ کو پانچ فیصد کامیابی ملی ہوئی ہے ہم اپنے طور پر فرقہ واریت کے خاتمے امن اور بھائی چارے کی فضاء کو بحال رکھے ہوئے ہیں۔

مولانا عطاء اللہ شاہ جو بے زرز انسان تھے اور مدرسے میں قرآن و حدیث کا درس دیتے تھے کی شھادت بڑا سانحہ ہے جسے ڈی آئی خان کے ہرمکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے عوام نے درد شدت سے محسوس کیا ہے ۔اور یہ واقعات ڈیر ہ کے تمام شہر یو ں کو چیک پوسٹو ں پر تلاشی دینے کے باوجود ایسے واقعات کا ہونا سیکورٹی اداروں کی واضح ناکامی ہے مولانا کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ ظلم اور دشتگردی کا نشانہ علماء اکابرین اور مذہبی افراد بن رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے کسی قسم کا تحفظ اور امداد تک میسر نہیں مستونگ میں دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں کو حکومتی امداد تنگ نہیں ملی اس کے باوجود پر امن مذہبی افراد کے ساتھ حکومت اور بیروکریسی کا رویہ قابل افسوس ہے ملک میں دہشتگردی کے خلاف اور قیام امن کی جدوجہد میں مذہبی طبقہ اور دینی مدارس کا اہم کردار حکومت کو اس کا اعتراف کرنا ہوگا ۔

بین الاقوامی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکہ کی جانب سے نئی پالیسی کی بدولت پاکستان دورائے پر آن کھڑا ہے اس پر آرمی چیف کا بیان حوصلہ افزا ہے ۔اب 2001کے حالات نہیں ہیں مشرف کی طرح امریکہ کے آگے دوزانوں ہوجانا قوم کو دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔امریکہ افغانستان میں شکست تسلیم کرنے کے بجائے افغانستان میں مذید فوج بھیج کر اپنی کامیابی کا زریعہ نہیں بنا سکتا۔

مولانا نے ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس کی جانب سے معززین کو اپنی حفاظت کیلئے اسلحہ اور سیکورٹی گارڈ رکھنے کی ہدایت کو الٹے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ پولیس اپنی زمہ داریوں سے پیچھے ہٹ رہی ہے اگر شھریوں کا تحفظ پولیس اور انتظامیہ جو ان کی زمہداری بنتی ہے نہیں کرسکتی اور تھانوں کے گیٹ بند کرکے بیٹھی رہے گی تو کہیں ان کی حفاظت کی زمہ داری بھی عوام کو انجام نہ دینی پڑے اس لئے انتطامیہ اور پولیس حکام عوام کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے میں اپنے فرائض کو سمجھیںاور عوام کا عتماد بحال کریں۔