دہشتگردوں کیخلاف آپریشن خیبرفورمکمل،250 مربع کلومیٹرکاعلاقہ کلیرکروا لیا، ترجمان پاک فوج

آپریشن میں 2 نوجوان شہید اور 6 زخمی ہوئے ،جبکہ 52 دہشتگرد مارے گئے،اور4 نے ہتھیارڈال دیے،آئی ای ڈی بنانے کے ایک موادپر’میڈان انڈیا‘ لکھا ہوا تھا،میجرجنرل آصف غفورکی میڈیا کوبریفنگ

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ پیر 21 اگست 2017 17:22

دہشتگردوں کیخلاف آپریشن خیبرفورمکمل،250 مربع کلومیٹرکاعلاقہ کلیرکروا ..
راولپنڈی(اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار۔21 اگست 2017ء ) : پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے قوم کوخوشخبری سنائی ہے کہ پاک فوج نے آپریشن خیبرفورمکمل کرکے دہشتگردوں سے250مربع کلومیٹرکاعلاقہ کلیرکروالیا ہے، آپریشن میں 2نوجوان شہید اور 6زخمی ہوئے ہیں، جبکہ آپریشن میں 52 دہشتگرد ماردیے گئے،اور4 دہشتگردوں نے ہتھیاربھی ڈال دیے،آئی ای ڈی بنانے کا مواد ملا،ایک مواد پرمیڈان انڈیا لکھا ہوا تھا۔

انہوں نے آج پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ راجگال میں 91 نئی پوسٹس بنائی گئی ہیں۔ پنجاب میں 1728 انٹیلی جنس بیس آپریشنز کیے گئے۔ پاکستان نے اپنی طرف سے بارڈر مینجمنٹ مضبوط کی ہے 95 فیصدتک آئی ڈی پیز واپس جاچکے ہیں ۔میجر جنرل آصف غفور نے بتایا کہ خیبر 4آپریشن 15 جولائی کو شروع کیا گیا تھا،آپریشن بہت مشکل تھاجس کے دوران 2سپاہی شہید اور 6زخمی ہوئے،خیبر ویلی میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔

(جاری ہے)

اب تک 253 کلومیٹر کا علاقہ کلیئر کرایاگیا،اس آپریشن میں 52 دہشت گرد مارے گئے، 31 زخمی ہوئے، ایک کو زندہ گرفتار کیاگیا، 4نے خود کو حوالے کیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ آپریشن میں تیار آئی ای ڈیز بھی برآمد ہوئیں، آئی ای ڈی بنانے کے ایک مواد پر” میڈ ان انڈیا “کا لیبل ہے،راجگال اور شوال میں ایک ایک دہشت گرد ہمارے نشانے پر تھا، خیبر فور آپریشن کیلئے افغان سیکیورٹی فورسز سے بھی تعاون لیا گیااور مشاورت بھی کی گئی،اب تک 124ہزار آپریشن پورے پاکستان میں کر چکے ہیں،2017ء میں کراچی میں دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا۔

  پولیس مضبوط ہوگی تو اسٹریٹ کرائم میں وقت کیساتھ کمی آئے گی۔فاٹا میں اصلاحات سے متعلق ترجمان پاک فوج نے کہا کہ فاٹا میں اصلاحات بہت ضروری ہیں لیکن سیاسی نظام میں اس کا طریقہ کارہوتاہے، وہاں کے لوگوں کو پاکستانی ہونے کا حق اور ان کو وہ تمام سہولیات ملنی چاہئیں جو ایک پاکستانی کا حق ہے، پاک فوج کے جانب سے اس سلسلے میں تجاویز حکومت کودی جا چکی ہیں۔

ہم نے سیکیورٹی تناظر میں اپنی سفارشات فاٹا ریفارمز پر دے دی تھیں،آرمی کا کوئی پوائنٹ نہیں تھا کہ فاٹا ریفارمز ہونی چاہئیں یا نہیں ہونی چاہئیں، کسی بھی آئی ڈی پی کو زبردستی واپس نہیں بھیجا گیا۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں انٹیلی جنس اطلاعات پر 1728 آپریشن کیے،آپریشن ردالفساد کے تحت ملک بھر میں 3300آپریشن کیے گئے، آپریشن شروع ہوا تو فاٹا کے بہت سے لوگ آئی ڈی پیز بن گئے، 95فیصد لوگ اب اپنے علاقہ میں واپس آ چکے ہیں پانچ فیصد کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ واپس نہیں آنا چاہتے اور ان علاقوں میں رہائش اختیار کرلی ہے جہاں عارضی طورپر منتقل ہوئے تھے۔

انہوں نے کہاکہ وہاں کے بہت سے کیڈٹس پاک فوج میں تربیت لے رہے ہیں،فاٹا کے نوجوانوں کی رجسٹریشن کی جائے گی،وہاں 147اسکول ،17ہیلتھ یونٹس، 27مساجد قائم کی گئی ہیں۔میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ لاہور میں ارفع کریم ٹاور کے واقعہ کی خفیہ خبر تھی اس پر کام ہورہا تھا اور اس دن وزیراعلیٰ پنجاب کا دورہ بھی طے تھا اور نشانہ بھی وزیراعلیٰ پنجاب تھے لیکن عین وقت پر ان کا منصوبہ تبدیل ہوا اور انھیں پولیس کو نشانہ بنانے کا حکم ملا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اس نیٹ ورک پر مزید کام کیا گیا تو اور بھی خودکش بمبار تھے جنھوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کو نشانہ بنانا تھا لیکن ان کے حوالے سے تفصیلات اس لیے نہیں بتائیں گے کیونکہ ہمیں ان سے تفتیش جاری ہے۔ انہوں نے کہاکہ کئی غیرملکیوں نے پاکستانیوں کے لیے کام کیا،59غیرمسلم پاکستانیوں نے دفاع کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا،ہم سب پاکستانی ہیں اور سب مل کرپاکستان کا دفاع کریں گے،پاکستان کی سرحدکے باہرہم ایک ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ کے دوران کالعدم تحریک طالبان باجوڑ کے دہشت گرد اجمل خان کا ویڈیو بیان میڈیا کو دکھایا گیاجس میں وہ اعتراف کررہا ہے کہ انھوں نے محرم کے دوران کالے کپڑے پہن کر وہاں پر کارروائی کریں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ 2013 میں راولپنڈی میں سنی مسجد پرحملہ کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری شیعہ تنظیم نے قبول کی تھالیکن آئی ایس آئی نے اس پر بہت کام کیا اور نیٹ ورک کو بے نقاب کیا اوردہشت گرد کو گرفتار کیا اور یہ دہشت گرد بھی اسی مسلک سے تعلق رکھتے تھے جس مسلک کی یہ مسجد تھی۔

انہوں نے کہاکہ مسجدمیں آگ لگانے والوں کا مقصد فرقہ واریت کو ہوا دینا تھا،مسجد پر حملہ کرنیوالے اسی مسلک کے تھے۔انہوں نے بتایا کہ گرفتاردہشت گردوں کواین ڈی ایس اور”را” کی حمایت حاصل تھی۔ کچھ دہشتگردوں کا تعلق کلبھوشن نیٹ ورک سے تھا۔انہوں نے کہاکہ شیعہ سنی فساد وہاں سے شروع نہیں ہوا جہاں سے یہ پاکستان کے بدخوا اور دشمن شروع کرنا چاہتے تھے۔

انہوں نے کہاکہ ہم متحد رہے تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے یوم آزادی پر واہگہ بارڈر پر جنوبی ایشیا میں سب سے بلند پرچم لہرایا، جس پر بھارت نے الزام لگایا کہ بلند پرچم انٹیلی جنس معلومات کیلئے لگایا گیا ہے،قومی پرچم سے جاسوسی کا بھارتی الزام غلط ہے، ہمیں ا س کی ضرورت نہیں۔  ہماری انٹیلی جنس ایجنسیزمطلوبہ معلومات حاصل کر سکتی ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ اس مرتبہ یوم آزادی پر ملک کے ان حصوں میں بھی قومی پرچم لہرایاگیاجہاں لوگ کہتے تھے کہ پرچم نہیں لہرایا جاسکتا اس موقع پر صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں حق خود ارادیت کی جدو جہد ہورہی ہے۔ کشمیر ایک متنازعہ معاملہ ہے جس سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں انہوں نے کہاکہ بھارت اس جدو جہد کو دہشتگردی قرار دینے کی کوشش کرتا ہے ۔

سول ملٹری تعلقات پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی مسئلہ نہیں، سول اور ملٹری میں کوئی تفریق نہیں، دونوں ایک ہیں، سویلین جس ماحول میں رہتے ہیں، وہاں سیاست ہے اور سیاسی سرگرمیوں سے فوج کا کوئی تعلق نہیں۔ کبھی فنکشنل امور کے حوالے سے کوئی اختلاف ہوبھی تواسے سول ملٹری تعلقات سے منسلک نہ کریں ۔ میں بھی ریٹائر منٹ کے بعد سویلین بن جاؤنگا ۔

ڈان لیکس انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج نے کہاکہ ڈان لیکس سمیت کسی بھی انکوائری کی رپورٹ کو منظر عام پر لانا حکومت کا دائرہ اختیار ہے اس حوالے سے سفارشات پر وزیر اعظم نے فیصلہ کیا تھا او ر میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اس حوالے سے حتمی اتھارٹی وزیر اعظم ہیں ۔انہوں نے کہاکہ حقائق جاننا عوام کا حق ہے، جو ڈان لیکس انکوائری منظرعام پر لا نے کا خواہاں ہے وہ حکومت سے درخواست کرے۔

سیاسی جماعتوں کے ساتھ فوج کے ممکنہ این آر او بارے گردش کر نے والی اطلاعات سے متعلق انہوں نے کہاکہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ یا الگ ہو کر چلتی رہتی ہیں سیاسی معاملات یا ایسے کسی این آر او کی منظوری سے فوج کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔پرویز مشرف سے متعلق میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پرویز مشرف پاک فوج کے سربراہ رہے ہیں، انہوں نے پاک فوج میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں لیکن اب انہیں ریٹائر ہوئے بھی کئی برس ہوگئے ہیں وہ سابق صدر اور ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں ۔

سیاست سے متعلق پرویز مشرف بیان بحیثیت سیاست دان دیتے ہیں۔اس وقت پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں اور فوج میں ان کی پالیسی چلتی ہے ۔چیئرمین سینٹ کی جانب سے عدلیہ اور فوج سمیت ریاستی اداروں میں مکالمے کے حوالے سے سوال کے جواب میں میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ مذکورہ تجویز میڈیا آئی ہے ۔ فوج ریاست کا ایک عضوہے اگر کوئی حکومت کوئی ایسی چیز کرتی ہے تو جو کر دار فوج کا ہوگا وہ اس میں شریک ہوگی ۔

افغانستان کے اندر دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ سرحدی علاقوں میں دہشتگردوں کے جن ٹھکانوں سے ہمیں براہ راست خطرہ تھا ان کے خلاف کارروائی کی گئی ۔ افغانستان ایک خود مختار ملک ہے افغانستان کے اندر ایسی پناہ گاہوں کے خلاف ہم کارروائی نہیں کرسکتے ان کی اپنی فورس موجود ہے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان میں کسی دہشت گرد تنظیم کا منظم نیٹ ورک نہیں، شمالی وزیرستان میں بلاامتیاز آپریشن کیا گیا، امریکی وفود کو واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں بلاامتیاز آپریشن کیے گئے ہیں اور امریکا کی افغان پالیسی سے متعلق دفتر خارجہ بیان جاری کریگا۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ وفاقی حکومت فوجی عدالتوں کو کیس بھیجتی ہے،حکومت کے فیصلوں کے مطابق دہشت گردوں کے کیس کو آگے چلائے جاتے ہیں ۔سوشل میڈیا پر قومی پرچم جلائے جانے کی ویڈیو سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ترجمان پاک فوج نے کہا کہ کوئی بھی پاکستانی پاکستان کے پرچم کی توہین برداشت نہیں کرسکتا، سب کو معلوم ہے کہ کس کے کہنے پر اور کس نے پرچم کو نذرآتش کیا۔انہوں نے کہاکہ پرچم جلانے والے پاکستانی نہیں ہوسکتے ، عوام ان کو معاف کر نے کو تیار نہیں۔۔۔ویڈیو بھی دیکھیں