لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنس کیس‘ نیشنل بینک کے صدر سعید احمد نیب لاہور میں پیش ‘اسحاق ڈار کو 22اگست کو پیش ہونے کے نوٹس

ہجویری مضاربہ کے لیے بینک اکاﺅنٹ اسحاق ڈار کے کہنے پر کھولا‘چیک بک اسحاق ڈار کے ملازم نعیم محمود کے حوالے کردی تھی۔نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر سعید احمد کا نیب کو بیان-شریف خاندان کے بعد اسحاق ڈار نے بھی پاناما فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائرکردی‘9 صفحات پر مشتمل نظر ثانی درخواست میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 21 اگست 2017 12:46

لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنس کیس‘ نیشنل بینک کے صدر سعید احمد نیب لاہور ..
لاہور/اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 اگست۔2017ء) لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنس کیس میں نیشنل بینک کے صدر سعید احمد نیب لاہور میں پیش ہوئے جبکہ وفاقی وزیرخزانہ اسحا ق ڈار کو کل پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا گیا ہے۔نیب لاہور میں ریکارڈ کروائے گئے اپنے بیان میں نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر سعید احمد نے اعتراف کیا کہ ہجویری مضاربہ کے لیے بینک اکاﺅنٹ اسحاق ڈار کے کہنے پر کھولاگیا اور بینک اکاﺅنٹ کھولنے کے بعد چیک بک اسحاق ڈار کے ملازم نعیم محمود کے حوالے کردی تھی۔

شریف خاندان کے ایون فیلڈ کے فلیٹس کے حوالے سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں نیشنل بنک کے سربراہ سعید احمد ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نیب لاہور کی سربراہی میں تشکیل دی جانے والی تحقیقاتی ٹیم کے روبرو پیش ہوئے جہاں ان سے پوچھ گچھ کی گئی۔

(جاری ہے)

پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے روبرو پیش ہو کر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اعتراف کیا تھا کہ نواز شریف کے کاروباری لین دین کے لیے سعید احمد کے بینک اکاﺅنٹس استعمال ہوا کرتے تھے۔

جبکہ سعید احمد نے جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے وقت منی لانڈرنگ میں استعمال ہونے والے بینک اکاﺅنٹس سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا تاہم ان کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے ہجویری مضاربہ کے لیے بینک اکاﺅنٹ اسحاق ڈار کے کہنے پر کھولا تھا اور بینک اکاﺅنٹ کھولنے کے بعد چیک بک اسحاق ڈار کے ملازم نعیم محمود کے حوالے کردی تھی۔جے آئی ٹی کی رپورٹ میں سامنے آیا تھا کہ سعید احمد سعودی عرب میں ملازمت کے دوران مالی بے ضابطگی پر گرفتار ہوئے تھے جبکہ نیشنل بنک کے صدر مقررہونے سے پہلے وہ برطانیہ میں ایک اولڈہوم میں ملازمت کرتے رہے ہیں-مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے نیشنل بینک کے صدر نے اپنے ہی دستخط شدہ بینک اکاﺅنٹ کے اوپننگ فارم کو پہچاننے سے انکار کردیا تھا۔

سعید احمد کے پانچ بنک اکاﺅنٹس کے ذریعے بھاری رقوم کی منتقلی کی گئی اور ان کے ذریعے موسی غنی اور اسحاق ڈار مستفید ہوتے رہے جبکہ ان کے بینک اکاﺅنٹس سے ہجویری گروپ کو رقوم منتقل کی گئیں جہاں سے شریف فیملی کو قرضے دیے گئے اور انہوں نے جو لاکھوں ڈالر بیرون ملک منتقل کیے وہ حدیبیہ پیپرز ملز کے کام آئے۔سعید احمد کے بنک اکاﺅنٹس سے اسحاق ڈار کی کمپنیوں کو 76 لاکھ 20 ہزار ڈالر جبکہ تبسم اسحاق ڈار کو 3 لاکھ 26 ہزار ڈالر کے قرضے فراہم کیے گئے ۔

سعید احمد کے بینک اکاﺅنٹس میں کل 1 کروڑ 15 لاکھ 45 ہزار 6 سو 83 ڈالر جمع کرائے گئے جو 98-1997 کے دوران کم ہو کر بیرون ملک منتقل ہونا شروع ہو گئے تھے۔دوسری جانب شریف خاندان دوسرے نوٹس پر بھی حا ضر نہ ہوا اور نوٹس ملنے کی تردید کی گئی۔ نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ شریف خاندان کو ایک نوٹس اور بھیجیں گے۔ پھر بھی نہ آئے تو سپریم کورٹ کو بتادیں گے۔آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں جواب دینے کے لیے وفاقی وزیرخزانہ اسحا ق ڈار 22اگست کو نیب لاہور کے سامنے پیش ہوکر تفتیشی ٹیم کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کے جواب دیں گے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ نیب لاہور کے ڈائریکٹر جنرل میجر (ر) شہزاد سلیم کی سربراہی میں اسحاق ڈار سے آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں تفتیش کی جائے گی۔نیب لاہور نے اس حوالے سے 35سے زائد سوالوں پر مبنی ایک سوالنامہ بھی 18اگست کو ہی وفاقی وزیرخزانہ کو ارسال کیا ہے، جس میں ان کے اثاثوں سے متعلق اہم سوالات کیے گئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب لاہور میں سپریم کورٹ کی طرف سے پانامہ کیس کے فیصلے کی روشنی میں ایون فیلڈ فلیٹس کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں آج سابق وزیراعظم کے قریبی دوست اور نیشنل بینک کے صدر سعید احمد اور شوگر ملز ایسوسی ایشن سے تعلق رکھنے والے جاوید کیانی کو بھی طلب کیا گیا ہے۔

ادھر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی پاناما فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست دائرکردی ہے۔اسحاق ڈار کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی نظر ثانی درخواست 9 صفحات پر مشتمل ہے، درخواست وفاقی وزیر کے وکیل شاہد حامد اور ڈاکٹر طارق حسن نے دائر کی۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ میرے خلاف نام نہاد اعترافی بیان کا الزام لگایا گیا، درخواست گزار کی جانب سے آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام نہیں لگایا گیا تھا، جے آئی ٹی کی رپورٹ حقائق پر مبنی نہیں، اپنا تمام مالیاتی ریکارڈ سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی کو دے چکا ہوں۔

1983 سے 2016 تک کا مکمل انکم اور ویلتھ ٹیکس ریکارڈ فراہم کیا گیا اور ٹیکس اتھارٹیز نے میرے گوشواروں کو قبول کیا۔ بطوروزیر خزانہ اثاثوں میں 544 ملین کی کمی ہوئی جب کہ اثاثوں میں اضافہ-09 2008 میں ہوا جس کی وجہ 6 سالہ غیر ملکی آمدن تھی۔درخواست میں مزید کہا گیا کہ عدالت نے جے آئی ٹی کو اثاثوں کی تحقیقات کا حکم نہیں دیا تھا، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا، جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف ہمارے اعتراضات کو زیرغور نہیں لایا گیا،عدالت نے بھی مینڈیٹ سے تجاوز رپورٹ پر ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں قانونی سقم موجود ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد سماعت 3 ججز اور فیصلہ 5 ججز نے سنایا، جن 2 ججز نے سنا نہیں وہ فیصلے میں کیسے شامل ہو گئے جب کہ نگراں جج کے تقرر سے عدالت بظاہر شکایت کنندہ بن گئی اور نگراں جج کی تعیناتی ٹرائل پر اثر انداز ہو گی، نگراں جج کی تعیناتی اور 28 جولائی کا حکم آرٹیکل 175 اور 203 کی خلاف ورزی ہے لہذا 28 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ واضح رہے سپریم کورٹ نے پاناما کیس کے فیصلے میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز سمیت ان کی صاحبزادی مریم نواز، ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر اور اسحاق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔