تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کیلئے آرمی اور پولیس کی مشترکہ ٹیمیں تشکیل دی جارہی ہیں،پرویزخٹک

منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے سنٹر پجگی روڈ کو آرمی کے حوالے کرنے کا بھی عندیہ دیدیا، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں منشیات کی سمگلنگ اور اس کے استعمال کو روکنے کیلئے دیر پا اقدامات ناگزیر ہیں، آرمی اور پولیس پر مشتمل مشترکہ ٹیمیں تشکیل دی جارہی ہیں جو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں چھاپے ماریں گی ،وزیراعلی

اتوار 20 اگست 2017 19:10

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اگست2017ء) وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کیلئے آرمی اور پولیس کی مشترکہ ٹیمیں تشکیل دی جارہی ہیں۔ انہوںنے منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے سنٹر پجگی روڈ کو آرمی کے حوالے کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے ۔وہ وزیراعلیٰ ہائوس پشاور میںڈائریکٹر جنرل انٹی نارکوٹکس فورس میجر جنرل مسرت نواز ملک سے گفتگو کر رہے تھے۔

سیکرٹری سوشل ویلفیئر اور دیگر متعلقہ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں منشیات کی سمگلنگ اور اس کے استعمال کو روکنے کیلئے دیر پا اقدامات ناگزیر ہیں ۔اس مقصد کیلئے آرمی اور پولیس پر مشتمل مشترکہ ٹیمیں تشکیل دی جارہی ہیں جو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں چھاپے ماریں گی ۔

(جاری ہے)

ان ٹیموںکے باقاعدہ اجلاس ہوں گے اور باہمی کوآرڈنیشن یقینی بنائی جائے گی ۔

وزیراعلیٰ نے منشیات کے عادی افراد کی آباد کاری و بحالی کیلئے سرکاری ہسپتالوں میں بھی اہتمام کرنے کی ہدایت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک کار خیر ہے جس پر خصوصی توجہ دینی چاہیئے ۔ مجوزہ ٹیموں کی تشکیل کیلئے وزیراعلیٰ نے انسپکٹر جنرل پولیس سے بھی بات کی ۔دریں اثناء مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہاکہ اُن کی حکومت نے ایک قابل عمل سسٹم کی بنیادرکھ دی ہے۔

ایک منظور شدہ طریقہ کار ہے ۔ قوانین کے ذریعے ڈیلیوری کے عمل میں موجود رکاوٹیں دور کی گئی ہے۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ اُن کی ساری عمر سیاست میں گزری ہے ۔ عوام کی تکالیف کو محسوس کیا اور جتنا اختیار تھا وہ اُن تکالیف کے ازالے کیلئے استعمال کیا۔ انہوںنے ماضی کے سسٹم کا بغور مشاہد ہ کیا اور محسوس کیا کہ یہ سسٹم کتنا کھوکھلا ہے لوگ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے تھے اور ادارے ڈیلیور نہیں کر رہے تھے۔

وزیراعلیٰ نے کہاکہ جب اُن کی حکومت نے اصلاحا ت کا سلسلہ شروع کیا تو عجیب و غریب صورتحال کا سامنا تھا ۔ اُن کیلئے یہ امر انتہائی عجیب اور افسوسناک تھا کہ جب انہوںنے دیکھا کہ ایک فرد کسی ایک معاملے میں دو جگہوں پر دو مختلف فیصلے کرتا ہے ۔ یعنی فیصلہ سازی ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کی جاتی تھی ۔ میرٹ کے برعکس جو جی میں آیا فیصلہ کردیا اور جب چاہا بدل دیا ۔

اداروں کا مقصد کیا ہے اور عوام اس سارے عمل میں کہاں کھڑے ہیں کسی کو کوئی فکر نہ تھی ۔ذمہ داران کے اس طرز عمل سے عوامی فلاح اور ریلیف دینے کی روح متا ثر ہوتی ہے اس طرز عمل کے تدارک کیلئے ذہنوں کی تربیت ناگزیر تھی تاکہ منفی سوچ کی بجائے ریلیف دینے کا راستہ بنایا جا سکے۔ہمیں عوام کو درپیش مشکلات کوسمجھ کر اُن کے حل کا راستہ ڈھونڈنا ہو گا۔

وزیراعلیٰ نے کہاکہ اُن کی حکومت نے انہیں خطوط پر کام شروع کیا ۔ پہلی بارلوکل گورنمنٹ کے تحت اداروں اور اختیارات کو گائوں کی سطح تک لے گئے ۔ مقامی حکومتوں کو اختیارات کے ساتھ وسائل بھی دیئے یہ وسائل کسی کی جیب بھی نہیں جانے چاہئیں ۔ہم نے ہر ڈویژن کو منصفانہ وسائل دیئے ۔ڈیلیوری کے لئے اداروں کو بااختیار بنایا ۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہمارا کام پالیسی بنانا ، قانون سازی کرنا اور قابل عمل سسٹم دینا ہے۔

اسی کیلئے ہم کھڑے ہیں۔ ہم نے راستے بنائے اور خدمات کی فراہمی کا عمل شروع کیاجس کے اثرات ہر سطح پر واضح ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ موجودہ صوبائی حکومت کے وضع کردہ اس سسٹم کا تسلسل قومی ترقی اور خوشحالی کیلئے ضروری ہے۔ایک شفاف اور منصفانہ نظام کے بغیر ترقی کا تصور بھی ناممکن ہے۔

متعلقہ عنوان :