اپنے اختلاف رائے کو ظاہر کردوں تو پارٹی قیادت اور پارٹی دونوں کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے ،چوہدری نثار

اپنے اصولی موقف کے تحت یہ پوزیشن اختیار کی ہے ، میرے لئے عہدے کوئی بڑی بات نہیں ، ٹرائل کورٹ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کا حکم جاری کرسکتی ہے ، یہ حکم جاری ہونے پر وزارت داخلہ عمل درآمد کی پابند ہوگی ، آج بھی ویزوں اور بین الاقوامی این جی اوزکے معاملے پر پاکستان پر دبائو ہے ، کئی ایک سربراہان مملکت اس معاملے میں مداخلت کی ہے ، وزارت داخلہ کو ای سی ایل کی پالیسی کے حوالے سے اندرونی طور پر شدید دبائو کا سامنا ہے سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی پنجاب ہائوس اسلام آباد میں پریس کانفرنس

اتوار 20 اگست 2017 18:50

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 20 اگست2017ء) سابق وفاقی وزیر داخلہ و پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ اپنے اختلاف رائے کو ظاہر کردوں تو پارٹی قیادت اور پارٹی دونوں کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے ، اپنے اصولی موقف کے تحت یہ پوزیشن اختیار کی ہے ، میرے لئے عہدے کوئی بڑی بات نہیں ، انہوں نے واضح کیا ہے کہ ٹرائل کورٹ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کا حکم جاری کرسکتی ہے ، یہ حکم جاری ہونے پر وزارت داخلہ عمل درآمد کی پابند ہوگی ،وزارت داخلہ کی 40صفحات پر مشتمل 4سالہ کارکردگی رپورٹ جاری کرتے ہوئے سابق وزیرداخلہ نے کہا ہے کہ آج بھی ویزوں اور بین الاقوامی این جی اوزکے معاملے پر پاکستان پر دبائو ہے ، کئی ایک سربراہان مملکت اس معاملے میں مداخلت کی ہے ، اسی طرح وزارت داخلہ کو ای سی ایل کی پالیسی کے حوالے سے اندرونی طور پر شدید دبائو کا سامنا ہے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات ک ااظہار انہوں نے اتوار کو پنجاب ہائوس اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔چوہدری نثار نے واضح کیا کہ 24دنوں سے پارٹی اور حکومتی معاملات پر کوئی خبر لیک نہیں کی ،کوئی بیان نہیں دیا ، یہ وضاحت نہ کرنی پڑتی اگر مجھ سے منسوب بیان نہ چلا یا جاتا ۔ چوہدری نثار علی خان نے واضح کیا کہ کابینہ اور پارٹی اجلاسوں میں بات کرتا رہا ہوں ، مرکزی مجلس عاملہ میں بھی 45ممبران تھے ، کلوز ڈور اجلاس تھا ، ان اجلاسوں کے حوالے سے کوئی بددیانتی نہیں کی ، اپنے اصولی موقف پر آج بھی قائم ہوں اور اپنے اختلاف رائے کو اس لئے ظاہر نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس وقت پارٹی اور پارٹی قیادت دونوں پر مشکل وقت ہے ، وزارت کی کارکردگی کے لئے یہ پریس کانفرنس کررہا ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ میں سوا چار سال کی اپنی وزارت کے بارے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں ، وزارت داخلہ کے پاس کوئی ایگزیکٹو اتھارٹی نہیں ، وزارت داخلہ کوئی اور وزارت پالیسی میکنگ کا ادارہ ہوتا ہے ، میں اپنی کارکردگی پر کبھی اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بنا ۔ چوہدری نثار نے کہا کہ یہاں کس ضلع میں بھی ہونے والے جلسے کی اجازت کے معاملے کی ذمہ داری وزارت داخلہ پر ڈالی گئی ، یہاں جو اچھے کام ہوتے تھے تو سب اس کی ذمہ داری لے لیتے ہیں جبکہ کسی خراب کام کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی جاتی ہے ، یہاں 20,20پر فوکس ہوتا ہے ، ٹیسٹ میچ پر کسی کی توجہ نہیں ، 2013جون میں روزانہ پانچ یا چھ دھماکے روزانہ ہوتے تھے ، میں نے وزیراعظم سے ملاقات کی اور اندرونی سیکیورٹی پر بات کی ، لوگ کہتے ہیں کہ اس وقت آرمی آن بورڈ نہیں تھی جبکہ آرمی بورڈ تھی ، جنرل کیانی اس وقت آرمی چیف تھے ، نیشنل ایکشن پلان پشاور اور اے پی ایس واقعہ کے بعد ایکٹویٹ ہوا، آج پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں ہے جہاں دہشت گردی کا گراف نیچے آیا ، آج پاکستان میں نہ کوئی دہشت گردی کے مراکز ہیں ، زیر زمین نیٹ ورک نہیں چل رہا ، کراچی آپریشن و ہم نے ایک مہینے بعد ٹیک اوور کیا ، دہشت گردوں کے خاتمہ کا آخری مرحلہ ہے اس میں کچھ مشکلات آئیں گی ، سرحد پار دہشت گردی کا نیٹ ورک بھیی ہے اور مراکز بھی ، اب دہشت گرد کمزور ہدف کو نشانہ بناتے ہیں ، غیر ملکیوں کے حاصل کردہ 32کروڑ سم منسوخ کر دیے ، ہم نے 100بلین سے زائد کے اخراجات امن وامان کیلئے خرچ کئے ، دو لاکھ سے زائد ممنوعہ بورڈ کے لائسنس منسوخ کئے ، 10ہزار سے زائد افراد کا نام ای سی ایل سے نکالے ، عسکریت پسندوں سے مذاکرات پر فوج آن بورڈ تھی ، بغیر دستاویزات طور خم بارڈر پر روزانہ 30ہزار لوگ بغیر دستاویزات آتے جاتے تھے ، پاکستان کی تارٰک میں پہلی دفعہ انٹرنیشنل این جی اوز کو ایک طریقہ کار میں لائے ، چوہدری نثار نے کہا کہ اسلام آباد میں400گھر ایسے تھے جو ان این جی اوز کے زیر استعمال تھے اور وہ اپنے آپ کو رجسٹر کروانے کو تیار نہ تھے ، میں نے ان کو رجسٹر کروانے کیلئے اقدامات کئے ، میں حیران ہوں جب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اسلحہ لائسنس پر پابندی لگائیں گے ہم نے دو لاکھ سے زائد ممنوعہ بورکے لائسنس منسوخ کئے ، اب ویزا سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد جاری کئے جاتے ہیں ، مجھے آزاد میڈیا سے کوئی اختلاف نہیں ، سول آرمڈ فورسز کی بہت سے قربانیاں ہیں ، ان کی قربانیاں لازوال ہیں ، ہم ہر وقت پولیس پر تنقید کرتے ہیں ، انٹیلی جنس ایجنسیز نے کبھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی ، آرمڈ فورسز ہماری فرنٹ لائن ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اور میری وزارت نے مل کر کام کیا ہے ، آج کراچی ایک آدمی کے پاگل پن کا غلام نہیں ہے ، کراچی آپریشن جب غلط روش پر گیا تو سندھ حکومت نے اعتراض کیا ، مجموعی طور پر سندھ اور خیبرپختونخوا کی حکومت نے ساتھ دیا ، ہم پر آج بھی بہت زیادہ پریشرز ہیں ، ای سی ایل کے حوالے سے آج بھی دبائو ہے ، دوستی اور تعلق کا دبائو ہوتا ہے ۔

چوہدری نثار نے کہا کہ میں اب حکومت میں نہیں میرے بعد پتہ نہیں کیا ہوتا ہے ، میں میٹنگ کے اندر بات کرتا ہوں ، اگر کسی نے میٹنگ کے اندر کی بات لیک کی تو وہ بددیانت ہے میں نہیں ، میں نے اختلافات رائے کی وجہ سے خود کو الگ کیا ، اسلام آباد میں کون سا غیر ملکی کہاں رہتا ہے وزارت داخلہ کے پاس مکمل ریکارڈ ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں وفاقی کابینہ چھوڑنے کی بات کی تھی سیاست چھوڑنے کی نہیں ۔

چوہدری نثار نے سوال کیا کہ پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اصولوں پر استعفیٰ دیا ۔ سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کی میٹنگ میں میں نے کھل کر بات کی ، اس میٹنگ میں 45افراد شریک تھے ۔ چوہدری نثار نے کہا کہ پرویز مشرف کو عدالت کے حکم پر باہر جانے دیا ، پرویز مشرف عدالت میں اپنا موقف دے کر گئے ہیں ، میں نے کل پریس کانفرنس کا اعلان کیا تھا لیکن کوئی ہائپ نہیں پیدا کی تھی ، مشرف کے واپسی سے متعلق ٹرائل کورٹ لکھے گا تو وارنٹ جاری ہوں گے ۔

انہوں نے کہا کہ مشرف عدالت میں موقف دینے گئے تھے وزارت داخلہ میں نہیں ، عدالت سے تحریری فیصلہ ملا تو مشرف کو جانے دیا ، وفاقی وزارت سے ایسے کوئی الگ نہیں ہوتا معاملات ہوتے ہیں ، وجہ بیان کرنا اس مناسب نہیں ۔ سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ ڈان لیکس کی رپورٹ پبلک ہونی چاہیے ، اس وقت پارٹی اور قیادت مشکل مٰں ہے ، کچھ مسائل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے میں نے وزارت قبول نہیں کی مگر ابھی مسائل بتانے کا وقت نہیں ہے ورنہ پارٹی کو نقصان ہوگا ، ہم افغانستان ، ایران کی سرحدوں پر بارڈر منیجمنٹ سسٹم بنا رہے ہیں ، بعض باشعور افراد بلا وجہ تنقید کر رہے ہیں ۔