ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان مخالف موقف اپنانے کے فیصلے پر اختلافات

حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر پاکستان کو دہشت گردممالک کی فہرست میں شامل کیاجائے،مشیروں کی تجویز

اتوار 20 اگست 2017 14:11

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اگست2017ء) امریکی صدر ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی ایچ آر مک ماسٹر اور ان کی ٹیم میں شامل دیگر اعلیٰ عہدیداروں نے افغانستان میں اضافی فوجی دستوں کی تعیناتی کا منصوبہ بنایا ہے جبکہ امریکہ کے پاکستان کے خلاف سخت موقف اپنانے کے فیصلے پر اختلافات برقرارہیں،میڈیارپورٹس کے مطابق امریکہ کے کئی حلقے خیال کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کے اس قریبی رفیق کی وائٹ ہاؤس سے علیحدگی کے باعث ایسے امکانات کم ہی ہیں کہ ٹرمپ افغانستان سے اپنی افواج واپس بلا لینے پر بھی غور کریں گے۔

کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والی ملاقات میں صدر ٹرمپ اور نیشنل سکیورٹی ٹیم نے اس حوالے سے بھی گفتگو کی کہ پاکستان کے خلاف سخت موقف اختیار کیا جائے۔ تاہم سفارتی ذرائع کے مطابق اس تناظر میں اختلافات برقرار رہے۔

(جاری ہے)

امریکہ کا اصرار ہے کہ پاکستان افغان سرحد سے متصل قبائلی علاقہ جات میں طالبان کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے میں تیزی دکھائے۔ ایسے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں کہ ان طالبان کو پاکستانی فوج کے کچھ عناصر کی طرف سے مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔

تاہم پاکستان ایسے الزامات کو مسترد کرتا ہے۔امریکی صدر ٹرمپ کو ایک ایسا منصوبہ بھی پیش کیا گیا ہے جس میں زور دیا گیا کہ اگر پاکستان سینئر افغان طالبان، بالخصوص حقانی گروپ کے خلاف کارروائی نہیں کرتا تو اسے دہشت گردی کی معاونت کرنے والی ریاستوں کی فہرست میں ڈال دیے جانے پر غور کرنا چاہیے۔پاکستان کو دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں ڈال دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ اسلام آباد حکومت پر سخت امریکی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی جبکہ اسلحے کی فروخت بھی روک دی جائے گی۔

اس صورت میں پاکستان امریکی اقتصادی مدد سے بھی محروم ہو جائے گا۔امریکی حکومت افغانستان میں طالبان کو شکست دینے کی خاطر ایک طرف تو عسکری آپشنز پر غور کر رہی ہے لیکن ساتھ ہی وہ پرامن مکالمت پر بھی زور دے رہی ہے۔ طالبان قیادت کے ساتھ بات چیت دراصل اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ مبصرین کے مطابق افغانستان میں قیام امن کی خاطر مذاکراتی عمل میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :