آج بدقسمتی سے ملک میں عدم برداشت ہے ،چیئرمین سینٹ

ادارے جو آئین کے تحت کام کرتے ہیں وہ بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور اپنی آئینی حدود میں رہنے کو تیار نہیں ہیں، میاں رضاربانی ضیاالحق کے دورمیں طلبہ یونینزپرپابندی عائد کی گئی، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لیبریونینوں کوتہس نہس کیا گیا ، اس دورمیں صرف مذہبی انتہاپسندوں کوکھلی اجازت تھی، آرٹس کونسل میں خطاب

ہفتہ 19 اگست 2017 23:09

آج بدقسمتی سے ملک میں عدم برداشت ہے ،چیئرمین سینٹ
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 اگست2017ء) چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے کہا ہے کہ آج بدقسمتی سے ملک میں عدم برداشت ہے ، ادارے جو آئین کے تحت کام کرتے ہیں وہ بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور اپنی آئینی حدود میں رہنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی سب سے بڑی وجہ ریاستی خاموشی ہے۔پاکستان آزادی حاصل کرنے کے باوجود آج 70 سال بعد موئن جودڑو سے بھی پیچھے ہے۔

آج کا پاکستان ایک دوسرے سے دست وگریبان ہیں، ہم مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہوئے ہیں،ضیاالحق کے دورمیں طلبہ یونینزپرپابندی عائد کی گئی، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لیبریونینوں کوتہس نہس کیا گیا ، اس دورمیں صرف مذہبی انتہاپسندوں کوکھلی اجازت تھی ۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے ہفتہ کو آرٹس کونسل میں آرٹس کونسل کے سابق سیکرٹری اور ریڈیو پاکستان کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر یاور مہدی کی شخصیت اور کارناموں کے حوالوں سے سے سید عون عباس کی تنصیف’’ہم کا استعارہ ‘‘ کی تقریب رونمائی سے بطور صدارت خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

تقریب سے پروفیسر انیس زیدی ، ڈاکٹر پروفیسر شاداب احسانی ، نثار زبیری ،سینیٹر خوش بخت شجاعت ، سابق کمشنر کراچی شفیق پراچہ و دیگر نے بھی خطاب کیا۔میاں رضا ربانی نے کہا کہ ایوب خان کی آمریت کے خلاف ایک ریلہ آیا تھا مگر جب ضیاء الحق پاکستان پر مسلط ہوا تو ملک کی ریاست نے اس بات کا جائزہ لیا کہ وہ کون سی طاقتیں ہیں جو آمریت کے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور انہوںنے دیکھا کہ طلبہ اور مزدور یونینز ان میں پیش پیش تھیں اور جنرل ضیاء الحق نے مزدور یونینوں کا خاتمہ کردیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کا مزدور جل کر مر بھی جائے تو سرمایہ دار کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاتا اور اسی دوران طلبہ یونینوں پر بھی پابندی عائد کی گئی تاکہ یہ طبقہ جو دیوانگی میں آمر کی گولیوں کے سامنے اپنے سینے چھلنی کرواتئے ہیں ان کی طاقت ختم ہو مگر بدقسمتی سے یہ پابندی ایسی تھی کہ قائداعظم کی سوچ کو پروان چڑھانے والوں پر تو پابندی تھی۔

مگر مذہبی انتہاپسندی کو کھلی چھوٹ دی گئی اور یہی وجہ ہے کہ پوری پاکستانی قوم دہشت گردی کی صورت میں اس کا سامنا کررہی ہے اور آمریت کی ان کوششوں کی وجہ سے ٹیسٹ ٹیوب، سیاست دانوں نے جنم لی اور اب ہمارے درمیان حبیب جالب، فیض احمد فیض اور جون ایلیا جیسے لوگ اس معاشرہ کا حصہ نہیں بن پا رہے۔ مجھے بتایا جائے کہ اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے، کیا ہم ماضی کو یاد کرتے ہیں ۔

متعلقہ عنوان :