بلوچستان میں سیکورٹی کے نام پر 30ارب روپے خرچ ہونے کے باوجود صوبے کے خوبصورت چہرے پر اب بھی خون کے دھبے موجود ہیں، سراج الحق

جماعت اسلامی پانامہ پیپرز میں موجود تمام 436افراد کے احتساب کیلئے سپریم کورٹ سے جلد رجوع کریگی، امیرجماعت اسلامی کی پریس کلب کے پروگرام حال احوال میں بات چیت

ہفتہ 19 اگست 2017 21:37

بلوچستان میں سیکورٹی کے نام پر 30ارب روپے خرچ ہونے کے باوجود صوبے کے ..
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 اگست2017ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ بلوچستان میں سیکورٹی کے نام پر 30ارب روپے خرچ ہونے کے باوجود صوبے کے خوبصورت چہرے پر اب بھی خون کے دھبے موجود ہیں،جماعت اسلامی پانامہ پیپرز میں موجود تمام 436افراد کے احتساب کیلئے سپریم کورٹ سے جلد رجوع کریگی،آئین کے آرٹیکل 62،63 آئینہ ہیں ان کو توڑنے کی بجائے اپنے چہرئے کے دھبوں کو دھونا چاہئے۔

یہ بات انہوں نے ہفتہ کو کوئٹہ پریس کلب کے پروگرام ’’حال احوال‘ ‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی،کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمٰن،جنرل سیکرٹری عبدالخالق رند اورعبدالمتین اخونذادہ سمیت دیگربھی موجودتھے،انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں سیکورٹی کے نام پر 30ارب روپے خرچ ہونے کے باوجود صوبے کے خوبصورت چہرے پر اب بھی خون کے دھبے موجود ہیں،دھماکوں میں سیکورٹی فورسز اور عام شہریوں کی شہادت اس بات کی دلیل ہے کہ صوبے میں اب بھی سکیورٹی بہتر نہیں، ہماری معاشی حالت اس وقت تک ٹھیک نہیں ہوسکتی جب تک امن و امان کی صورتحال بہتر نہ ہو،16 ماہ قبل کرپشن کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا،بدقسمتی سیکرپشن کے باعث سٹیل ملز،ریلوے،پی ٹی سی ایل جیسے ادارئے بھی خسارے میں ہیں،پانامہ اسکینڈل سامنے آنے پر حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ تحقیقات کے لئے آزاد کمیشن بنایا جائے لیکن حکومت نے آزاد کمیشن قائم کرنے کی بجائے راہ فرار اختیار کی اور آخر مجبور ہوکر ہم خود سپریم کورٹ گئے،سپریم کورٹ پہلے دو ججز نے اور بعد میں پانچ ججز نے فیصلہ دیا،یہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہواکہ پانامہ کیس میں حکومتی اور دیگر جماعتوں کے وکلائسمیت سب کو موقف پیش کرنے کامکمل موقع دیا گیا،حتیٰ کہ میں وکیل نہیں تھا لیکن مجھے بھی عدالت میں بولنے کا موقع ملا اور ججز نے مکمل دلائل کے بعد تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے نواز شریف کو نااہل قرار دیااور نواز شریف نے سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرنے کی بجائے گھرجانے کا بہانہ بنا کر جی ٹی روڈ کا رخ کرلیا،وہ بتائیں کہ اگر عدالت سیان کے حق میں فیصلہ آتا تو کیاوہ گھر کی بجائے خوشی سے اسلام آباد میں نہ بیٹھ جاتے،اس سے قبل بھی نواز شریف ماضی میں عدالتوں کے فیصلے تسلیم نہیں کیااور ایسے اقدامات کییجن سے اداروں کے درمیان ٹکراؤ پیداکرنے کا ماحول بنا،آج ایک بار پھر نواز شریف اداروں کے درمیان ٹکراو پید اکررہے ہیں خدانخواستہ اگر اسی طرح ہوا تو اس کے ذمہ دار نواز شریف ہونگے، انہوں نے کہا کہ جب جے آئی ٹی بنی تو بڑئے سوالات تھے لیکن جے آئی ٹی نے اس وقت کے وزیراعظم کے پاس جانے کی بجائے انہیں بلایا،انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی کا مطالبہ کسی ایک کا نہیں سب کے احتساب کا ہے،پانامہ پیپر میں شامل سیاستدانوں،بیورو کریٹس اور ججز سب کا احتساب ہونا چاہیے،انہوں نے کہاکہ جب سے نواز شریف کے خلاف فیصلہ آیا ہے کہا جا رہا ہے آئین سے آرٹیکل 62 اور 63 کو نکال دیا جائے اور یہ بھی کہاجارہا ہے یہاں کوئی صادق اور امین نہیں ایسا کہنا درست نہیں،ہر مسلمان صادق اور امین ہے جب تک کہ اس کے خلاف عدالت سے فیصلہ نہ آجائے یا اس کے خلاف کچھ ثابت نہ ہوجائے،ہم کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں جو امیدوار 62 63 پر پورا نہیں اترتا اسے ٹکٹ نہ دیں،انہوں نے کہاکہ آج بلوچستان میں سب سے زیادہ بے روزگاری اور غربت ہے یہاں پینے کا پانی تک میسر نہیں زراعت کا مسئلہ بھی پانی ہے ورلڈ بینک کے سروے رپورٹ کے مطابق کہاگیا کہ اگر آنیوالی وقت میں کوئٹہ میں پانی کے مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی تو عوام کوئٹہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائینگے،کچھ عرصہ قبل کرپشن کے حوالے سے رپورٹ آئی تھی جس کے مطابق سب سے زیادہ65فیصد کرپشن بلوچستان ،42سندھ،32پنجاب اور20 خیبر پختونخوا میں ہوتی ہے،انہوں نے کہاکہ بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں اگر کمی ہے تو انصاف اور درست تقسیم کار کی کمی ہے، انہوں نے کہاکہ حکومت میں آتے ہی دعوے کیے جاتے ہیں ڈیم بنائے جائیں گے مگر بنائے نہیں جاتے گوادر میں بچے بغیر چھت کے سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں حکمرانوں کو اپنی اور اپنے خاندان کی فکر ہے غریب عوام کی کسی کو فکر نہیں ،انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ احتساب اور برابری کا مطالبہ کیا اور آج بھی ہم اس اہم مسئلے کو ہر فورم پر اٹھارہے ہیں،سینٹ میں بھی بلوچستان کا کیس لڑا ہے،انہوں نے کہاکہ اسلام آباد کی ایک سکیم پر بلوچستان کے پورئے ترقیاتی بجٹ سے زیادہ خرچ ہوتا ہے،لاقانونیت کے راستے کا انتخاب حکمرانوں نے کیا انہوں نے کہاکہ جب تک امن وامان قائم نہیں ہوگا اس وقت معیشت بہتر نہیں ہوسکتی ہے،بلوچستان میں ترقی کے حوالے سی86ارب روپے جبکہ سیکورٹی کے نام پر30ارب روپے سالانہ خرچ ہورہے ہیں لیکن یہاں کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر علاقے کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے جبکہ امن وامان کی صورتحال یہ ہے کہ آج بھی عوام کے ساتھ سیکورٹی اداروں پر حملے ہورہے گزشتہ روز بھی سیکورٹی اداروں پر حملے میں کئی اہلکار شہید ہوئے ،ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ کشمیری مجاہد صلاح الدین کو دہشتگرد قراردینا ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔