پاکستان پیپلز پارٹی نے کلثوم نواز کے کاغذات نامزدگی چیلنج کردیئے

ہفتہ 19 اگست 2017 19:32

پاکستان پیپلز پارٹی نے کلثوم نواز کے کاغذات نامزدگی چیلنج کردیئے
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 اگست2017ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120کے امیدوار فیصل میر نے مسلم لیگ (ن) کی امیدوار بیگم کلثوم نواز کے الیکشن ٹربیونل میں کاغذات نامزدگی چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف تو کلثوم نواز نے اپنے کاغذات میں لکھا ہے کہ وہ ایک گھریلو خاتون ہیں جبکہ انہی کاغذات میں دوسری جگہ انہوں نے اپنے اقامے کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک کمپنی کی وائس چیئر پرسن ہیں اس کے علاوہ ان کے شوہر میاں نواز شریف نے مختلف سولہ کمپنیوں کی ملکیت شو کی ہے جس میں ان کی بیوی بھی مالکہ ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے کھربوں پتی دونوں بیٹے حسن نواز اور حسین نواز جو اپنے والد کو اربوں کھربوں روپے کے تحائف دیتے رہے ،کیا انہوں نے اپنی والدہ کو کوئی پیسے نہیں دئیے کہ ان کی والدہ صرف ایک لاکھ روپے کے زیور کی مالک ہیں اور ان کے جو اثاثے ہیں وہ بھی صرف دو کروڑ روپے کے ہیں ان کے کاغذات میں بہت سے جگہوں پر تضاد ات موجود ہیں لیکن ریٹرنگ آفیسر نے ان کے کاغذات منظور کر لئے اس لئے ہم نے الیکشن ٹربیونل میں پٹیشن دائر کردی ہے جس کی سماعت پیر سے ہو گی۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز لاہور پریس کلب میں لاہور کے صدر حاجی میاں عزیز الرحمن چن‘ جنرل سیکرٹری اسرار بٹ کے ہمراہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔فیصل میر نے بتایا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے خلاف الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے پی ایس ایف کے صدر منتخب ہوئے آمر ضیاء الحق کے دور میں چار سا تک جدوجہد کرتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے زعیم قادری کے مقابلے میں الیکشن لڑا وہ پیدائشی طور پر پیپلز پارٹی کے جیالے ہیں اور پیپلز پارٹی سے عقیدت کی حد ک انہیں محبت ہے اب پارٹی نے انہیں جس حلقے سے انہیں ٹکٹ دیا ہے اسی حلقے کے سب سے اہم سکول سینٹرل ماڈل میں انہوں نے میٹرک کیا ہے اور کاروبار بھی اسی حلقہ کے ایبٹ روڈ سے ہی شروع کیا تھا اس لئے حلقہ سے ان کی وابستگی پرانی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ریٹرنگ آفیسر نے میرے اعتراضات کے باوجود کلثوم نواز کے کاغذات کو منظور کر لیا جو کہ غلط ہے انہوں نے راجہ ظفرالحق کے لیٹر والی ٹکٹ جمع کورائی ہے جنہوں نے کبھی اس جماعت کو چئیر ہی نہیں کیا ہے جب نواز شریف نااہل ہو چکے ہیں تو پھر ان کے نام والی جماعت کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے اور دوسرا جس وقت انہیں الیکشن کمیشن نے طلب کیا تو وہ آچانک بیماری کا بہانہ بنا کر بیرون ممالک چلی گئیں انہیں حلقہ کے عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ بھی اپنے کاغذات میں مختلف جگہوں پر جھوٹ بولنے کیو جہ سے صادق اور امین نہیں رہیں اس لئے ان کے شوہر نواز شریف کی طرح انہیں بھی نااہل قرار دیا جائے اور اسی لئے میں ان کے خلاف الیکشن کمیشن کے ٹربیونل میں اپنی پٹیشن لیکر گیا ہوں جس کی سماعت پیر سے شروع ہو گی اور پیر کو ہی میں پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کے خلاف بھی ایک پٹیشن دائر کروں گا جس میں میرا یہ موقف ہو گا کیونکہ پی ٹی آئی کا غیر ملکی فنڈز لینے کا کیس الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے اور سات ستمبر کو الیکشن کمیشن نے اس کا کوئی فیصلہ کرنا ہے یا اس جماعت پر غیر ملکی فنڈز لینے کی وجہ سے پابندی لگنی ہے یا پھر انہیں کوئی ریلیف ملنا ہے لیکن میرا یہ موقت ہے کہ جب تک الیکشن کمیشن ان کی جماعت کے اس کیس کا فیصلہ نہیں کردیتا تو ان کے کاغذات کو بھی اس فیصلے سے مشروط کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس حلقہ میں جب عام الیکشن ہوئے تھے تو یاسمین راشد نے پیپلز پارٹی کے ووٹرز سے پیپلز پارٹی کے پرانے جیالوں کی بہو بھابی ہونے کا دعوی کرکے ووٹ حاصل کئے تھے لیکن اب پیپلز پارٹی نے اپنا امیدوار میدان میں اتار دیا ہے اور ہم ان کے ووٹوں سے بھی ڈبل ووٹ حاصل کریں گے جہاں تک آصف علی زرداری کے حلقہ میں انتخابی مہم چلانے کا تعلق ہے تو انہوں نے وہاں کے پارٹی کارکنوں کو بلاول ہائوس بلا کر ان سے ملاقات کی ہے اور جہاں تک بلاول بھٹو زرداری کے انتخابی مہم چلانے کا تعلق ہے تو آپ میڈیا والوں نے جو تجویز دی ہے اس کو ان تک پہنچا دوں گا ۔

انہوں نے کہا کہ میری حلقہ میں ڈور ٹو ڈور مہم کے دوران وہاں کے (ن) لیگی ووٹرز سے نے بھی شکائت کی کہ انہوں نے ہمارے لئے کچھ نہیں کیا غلاظت اور پسماندگی کی وجہ سے ہمارے بچوں کے رشتے تک لینے کو کوئی تیار نہیں ہے پورے حلقے میں ایک بھی پانی کاقطرہ ایسا نہیں ہے کہ جو پینے کے قابل ہو، تیس سال تک حکمران رہے یہاں سے وزیراعظم بھی بنے لیکن حلقے کے عوام کے لئے انہوں نے کچھ نہیں کیا اور اب الیکشن شیڈول جاری ہوتے ہی حلقہ میں سٹی گورنمنٹ کے ذریعے ترقیاتی کام کروائے جارہے ہیں اور خود الیکشن کمیشن کے سامنے والی سڑک بھی تعمیر کی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن اس کانوٹس لینے کو تیار نہیں ہے۔