پاکستان کی مدر ٹریسا“ ڈاکٹر روتھ فاﺅکو مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ کراچی کے گورا قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا

صدرممنون حسین، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، ایئر چیف مارشل سہیل امان، ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل آصف غفور، ڈی جی رینجرزمیجر جنرل محمد سعید ، کور کمانڈرکراچی ، گورنر سندھ محمد زیبر اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی تدفین میں شرکت

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 19 اگست 2017 11:09

پاکستان کی مدر ٹریسا“ ڈاکٹر روتھ فاﺅکو مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ کراچی ..
کراچی (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 اگست۔2017ء) جذام کے مریضوں کا علاج کرنے والی ”پاکستان کی مدر ٹریسا“ ڈاکٹر روتھ فاﺅ کو مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ کراچی کے گورا قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ہے -پاک فوج کے دستے نے ڈاکٹر رتھ فاﺅکو آرٹلری گنز کی سلامی دی اور ان کے جسد خاکی کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سینٹ پیٹرک کیتھڈرل چرچ پہنچایا گیاجہاں ان کی آخری رسومات اداکی گئیں-ڈاکٹررتھ فاﺅ کے آخری سفر کے موقع پر ٹریفک پولیس نے شہریوں کے لئے روٹ پلان جاری کیا گیا اورگرومندر سے ٹاور جانے والے کوریڈور تھری جانے والا ٹریفک کھلا رہا جبکہ صبح 9 بجے سے 11 بجے تک پاسپورٹ آفس جانے والی شاہراہ عراق بند رہی- ڈاکٹر رتھ فاﺅ کی آخری رسومات کے موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔

(جاری ہے)

سیکورٹی کے لئے واک تھرو گیٹ بھی لگائے گئے جبکہ رسومات میں شرکت کے لئے سیکورٹی پاسز جاری کئے گئے۔سینٹ پیٹرک کیتھڈرل کے اطراف عمارتوں پر رینجرز اہلکار تعینات کئے گئے،چرچ میں سیکورٹی کے لیے خواتین پولیس اہلکار بھی موجودرہیں۔ آخری رسومات میں ڈاکٹرروتھ فاﺅ کوتوپوں کی سلامی بھی دی گئی۔ڈاکٹر رتھ کی میت تدفین کیلئے سینٹ پیٹرک چرچ سے نکلی تو سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات تھے،پولیس اور رینجرز اہلکاروں سمیت سیکورٹی حصار میں میت گورا قبرستان لائی گئی،جہاں انہیں19توپوں کی سلامی دی گئی۔

اس موقع پر صدر مملکت ممنون حسین، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، ایئر چیف مارشل سہیل امان، ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل آصف غفور، ڈی جی رینجرزمیجر جنرل محمد سعید ، کور کمانڈرکراچی ، گورنر سندھ محمد زیبر اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ڈاکٹررتھ فاﺅکی سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی،تو پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے سلامی پیش کی،صدر مملکت ممنون حسین کی جانب سے قبر پر پھول چڑھائے گئے۔

تدفین کے وقت سولجر بازار سے صدر جانے والا راستہ عام گاڑیوں کیلئے بند کیا گیا تھا۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی ہدایت کے مطابق آنجہانی ڈاکٹر روتھ فاﺅکی آخری رسومات پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئیں۔مسلح افواج کے اہلکار ڈاکٹر روتھ کے جسد خاکی کو کراچی کے علاقے صدر میں واقع سینٹ پیٹرک چرچ میں لے کر داخل ہوئے جبکہ ان کا تابوت پاکستانی پرچم میں لپٹا ہوا تھا۔

ڈاکٹر روتھ فاﺅکی تدفین دوپہر 12 بجے گورا قبرستان میں متوقع ہے۔واضح رہے کہ آخری رسومات کے دوران سیکورٹی کی صورتحال یقینی بنانے کے لیے تینوں مسلح افواج کے اہلکاروں نے ذمہ داریاں سنبھال رکھی ہیں۔جذام (کوڑھ) کے مریضوں کا علاج کرنے والی ”پاکستان کی مدر ٹریسا“ ڈاکٹر روتھ فاﺅ 10 اگست کی رات کراچی میں انتقال کر گئی تھیں۔ کراچی کے علاقے صدر میں جذام کے مریضوں کے علاج کے لیے قائم میری ایڈیلیڈ سینٹر کے سی ای او کے مطابق 88 سالہ ڈاکٹر روتھ فاﺅ 2 ہفتے سے نجی ہسپتال میں زیر علاج تھیں۔

ڈاکٹر روتھ فاﺅ 1960 میں جرمنی سے پاکستان آئی تھیں، انہیں 1979 میں ہلال امتیاز اور 1989 میں ہلال پاکستان کے اعزازات سے نوازا گیا۔ڈاکٹر روتھ فاﺅکو 1988 میں پاکستانی شہریت دی گئی، ان کی کوششوں کی بدولت پاکستان کو 1996 میں جذام فری ملک قرار دیا گیا۔ ڈاکٹر رتھ فاﺅ نے اپنی زندگی کے 57 سال پاکستان میں انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردئیے اور مرتے دم تک یہیں رہیں۔

8 مارچ 1960 کی گرم سہ پہر اطالوی ائیرلائن ’الیطالیہ‘ کی فلائٹ کراچی ائیرپورٹ پر اتری اور اس میں سے فرانس سے آنے والے متعدد سفید فام یورپی شہری باہر نکلنا شروع ہوئے۔ ان لوگوں میں ایک 30 سالہ جرمن نژاد خاتون رتھ فاﺅ بھی تھیں۔اس وقت جب پاکستان میں کوڑھ کے مریض کو اچھوت سمجھا جاتا تھا اور اپنے سگے رشتہ دار بھی مریض کو مرنے کے لئے تنہا کسی مقام پر چھوڑ آتے تو جرمنی سے پاکستان آنے والی اس خاتون ڈاکٹر نے نہ صرف مسیحائی کا فرض ادا کیا بلکہ اس مرض کے پاکستان سے خاتمے کے لئے اپنی تمام زندگی وقف کردی۔

ڈاکٹر رتھ 9 ستمبر 1929 کو پیدا تو جرمنی میں ہوئیں لیکن ان کا دل پاکستان میں دھڑکتا تھا، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی زندگی کے 57 سال پاکستان میں انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کردیے اور مرتے دم تک یہ خدمت کا سلسلہ جاری رہا۔ جرمنی میں جنگ کی تباہ کاریوں نے ڈاکٹر رتھ کو اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی ۔ ڈاکٹر رتھ بھارت جاکر مدرٹریسا کی تنظیم کے ساتھ کام کرنا چاہتی تھیں مگر ویزے کے مسائل کی وجہ سے وہ بھارت تو نہ جاسکیں مگر انہوں نے پاکستان میں جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھ کر جرمنی میں اپنی تنظیم کو لکھا کہ بھارت کے بجائے ان کا اصل کام پاکستان میں ہے اور وہ یہیں خدمات انجام دینا چاہتی ہیں۔

تنظیم کی جانب سے اجازت ملنے پر ڈاکٹر رتھ نے اپنا خاندان، گھر اور ملک الغرض سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنی ساری زندگی پاکستان میں انسانیت کی خدمت اور کوڑھ کے مرض کے خاتمے کے لئے وقف کردی۔ 1963 میں ڈاکٹر رتھ فاﺅ نے پاکستان میں پہلی مرتبہ کراچی کے علاقے برنس روڈ پر لیپروسی سینٹر ( جزام سینٹر) کی بنیاد رکھی اور فیصلہ کیا کہ میکلوڈ روڈ پر جھونپڑ پٹی میں موجود کوڑھ کے مریضوں کو ہسپتال منتقل کیا جائے گا۔

اس زمانے میں کوڑھ کے مریضوں کے پاس جانے کو بھی خطرناک سمجھا جاتا تھا اس لئے مریضوں کی منتقلی کا کام رات کی تاریکی میں کیا جاتا، چند ہی روز میں علاقہ مکینوں کو ہسپتال کا معلوم ہوا تو انہوں نے ہسپتال کے خلاف ہائیکورٹ میں کیس دائر کردیااس زمانے میں بااثر خاندان کی بااثر شخصیت ڈاکٹر زرینہ فضل بائی نے ڈاکٹر رتھ کا ساتھ دیا اور کیس لڑنے میں بھرپور تعاون کیا، انہوں نے عدالت کو مطمئن کیا اور فیصلہ حق میں آنے کے بعد لیپریسی سینٹر نے باقاعدہ طور پر کام شروع کردیا۔

ڈاکٹر رتھ نے مشاہدہ کیا کہ کراچی کے لیپریسی سینٹر میں ملک بھر سے مریض آنے لگے جس کے بعد انہوں نے 1965 میں مقامی لوگوں کو تربیت دینا شروع کی اور خاص طور پر خیبرپختونخوا اور شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے پیرا میڈکس کو کوڑھ کے علاج کی تربیت دی۔ڈاکٹر رتھ فاﺅ نے خود باہر نکل کر کوڑھ کے مرض سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لئے کراچی کی سڑکوں پر ریلیاں نکالیں، گرم ترین صحرائے تھر گئیں، دشوار گزار پہاڑی علاقوں کا دورہ کیا اور سرحدی علاقوں میں موجود کوڑھ کے مریضوں کا علاج کیا۔

سادہ سے کپڑوں میں ملبوس اور مشرقی روایات میں ڈھل کر ڈاکٹر رتھ ٹوٹی پھوٹی اردو میں مریضوں سے بات کیا کرتیں اور پاکستانی زبانوں پر عبور حاصل نہ ہونے کے باوجود وہ مریضوں کی بات سنا کرتیں اور جب وہ کوڑھ کے مریضوں کو ہاتھ لگا کر علاج کرتیں تو دیکھنے والے حیرت زدہ ہوجاتے۔ملک میں کوڑھ کے مرض کے خاتمے اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر حکومت پاکستان نے انہیں 1969 میں ستارہ قائداعظم کے ایوارڈ سے نوازا اور اس وقت کے صدر جنرل یحیٰ خان سے میڈل وصول کیا۔

ڈاکٹر رتھ نے 1975 میں خیبرپختونخوا، 1976 میں بلوچستان اور 1984 میں گلگت بلتستان میں لیپریسی سینٹر کھولے۔1986 میں عالمی ادارہ صحت نے کوڑھ کے مریضوں کے لئے ملٹی ڈرگ تھراپی متعارف کرائی جو اس مرض پر قابو پانے کے لئے سود مند ثابت ہوئی۔ ڈاکٹر رتھ جس سماجی تنظیم سے جرمنی میں وابستہ تھیں اس نے انہیں بھارت میں مدر ٹریسا سے ملنے کا کہا تھا لیکن ویزا مسائل کی وجہ سے ڈاکٹر رتھ بھارت تو نہ جاسکیں البتہ مدر ٹریسا خود ہی پاکستان آگئیں۔

اس وقت کے صدر ضیاالحق نے مدر ٹریسا کو پاکستان مدعو کیا اور کراچی سے خصوصی طور پر ڈاکٹر رتھ کو بھی اسلام آباد بلایا گیا، اگر یوں کہا جائے کہ صدر ضیاالحق نے پاکستانی اور بھارتی مدر ٹریسا کی ملاقات کا اہتمام کیا تو غلط نہ ہوگا۔صدرضیاالحق نے ڈاکٹر فاﺅ کو فیڈرل ایڈوائزر مقرر کیا جس کے بعد پاکستان میں جاری لیپروسی پروگرام ان کے حوالے کردیا اور ڈاکٹر رتھ کی کوششوں کی بدولت 1996 میں عالمی ادارہ صحت نے اعلان کیا کہ پاکستان سے کوڑھ کے مرض کا خاتمہ ہوچکا ہے۔

میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر کے میڈیا منیجر نثار ملک کے مطابق صدر ضیاالحق نے ڈاکٹر رتھ کی خدمات کے پیش نظر انہیں پاکستانی شہریت جاری کی لیکن ڈاکٹر رتھ نے شہریت لینے سے انکار کردیا کیوں کہ وہ اپنی جرمن شناخت کو ختم نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ نثار ملک کے مطابق ڈاکٹر رتھ ہمیشہ کہتی تھیں جرمنی تو وہ ملک ہے جہاں میں پیدا ہوئی لیکن پاکستان میرے دل کا ملک ہے اور اگر میں مرجاﺅں تو مجھے یہیں دفن کیا جائےنثار ملک کے مطابق ڈاکٹر رتھ فاﺅ کی خواہش کے مطابق گورا قبرستان میں ان کی تدفین کی جائے گی۔

ایڈی لیڈ لیپروسی سینٹر کے میڈیا منیجر کے مطابق جرمن لیپروسی ریلیف ایسوسی ایشن نامی تنظیم ان کی پارٹنر ہے جو پاکستان میں میری لیڈ سینٹر کے لئے 60 فیصد فنڈنگ کرتی ہے جب کہ پاکستان سے زکواة، خیرات، صدقات اور ڈونیشن کی صورت میں 40 فیصد امداد جمع ہوتی ہے۔ڈاکٹر رتھ فاﺅ کے ملک بھر میں 157 سینٹر کام کر رہے ہیں جس میں نہ صرف کوڑھ کے مریضوں کا بلکہ اندھے پن کے کنٹرول، زچہ و بچہ کی دیکھ بھال، تپ دق کے مریضوں کا بھی علاج کیا جاتا ہے،ڈاکٹر رتھ کے سینٹر میں سالانہ 400 سے 500 کوڑھ کے مریض علاج کے لئے آتے ہیں تاہم مریضوں کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے اور اس وقت تقریبا ساڑھے 500 مریض زیرعلاج ہیں جب کہ مجموعی رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 57 ہزار 700 سے ہے۔

ان کے مطابق ڈاکٹر رتھ سال 2000 تک تمام امور کی نگرانی خود کیا کرتیں اور ہر سینٹر میں جاکر انتظامات کا جائزہ لیتیں لیکن 2002 میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی جس کے بعد وہ تقریبا ہر سال جرمنی جاکر تنظیم کے لئے فنڈ ریزنگ کرتیں۔نثار ملک کے مطابق ڈاکٹر رتھ فاﺅ کے خاندان کے لوگ جب تک زندہ تھے تو وہ جرمنی جاتی تھیں تاہم آخری مرتبہ وہ 2012 میں جرمنی گئیں جس کے بعد ڈاکٹروں نے ناساز طبیعت کے باعث انہیں سفر نہ کرنے کی ہدایت کی۔

پاکستان کی مدر ٹریسا“ ڈاکٹر روتھ فاﺅکو مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ کراچی ..