کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو پہل کرتے ہوئے کشمیر کو آزاد کرنے کی تجویز رکھنی چاہیے،محمود خان اچکزئی

امریکہ اور جہاد کے حامیوں کی مدد سے افغانستان میں لاکھوں غیرملکیوں کو تربیت دی گئی،ہمیں افغانستان سے، ایران سے اور انڈیا سے امن قائم کرنا ہوگا،سربراہ پختون خوا ملی عوامی پارٹی کی برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو

جمعہ 18 اگست 2017 22:49

کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو پہل کرتے ہوئے کشمیر کو آزاد ..
'اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 اگست2017ء) پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ، محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو پہل کرتے ہوئے کشمیر کو آزاد کرنے کی تجویز رکھنی چاہیے، مسئلہ کشمیر کا حل اس کی آزادی ہے، دونوں حصوں میں بٹے کشمیر کو آزاد کرنے کی بات سے پاکستان دنیا کو بتا سکے گا کہ وہ مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے،کشمیر جھگڑے کی جڑ ہے،اسے حل کرنے کے لیے اختراع ہم کیوں نہیں کرتی بلوچ اور پشتون بہت غریب لوگ ہیں۔

صوبے کے وسائل بہت زیادہ ہیں مگر انھیں گیس تک نہیں دی گئی، کون آپ کو لوٹنے کے لیے چھوڑے گا وہ کیا آپ کو اپنے خزانے لینے دیں گے۔ آج یہ اعلان کریں کہ جن کے جو وسائل ہیں ان پر مقامی لوگوں کا حق ہے، تو ساری مزاحمت ختم ہوجائے گی،امریکہ اور جہاد کے حامیوں کی مدد سے افغانستان میں لاکھوں غیرملکیوں کو تربیت دی گئی۔

(جاری ہے)

میرا خیال ہے کہ امریکہ اور ہمارے ملک کے کرتا دھرتا یہ جانتے ہیں کہ انھوں نے کس کس کو تربیت دی ہے، بس اب ان سے چھٹکارا حاصل کرلیں، ختم کر دیں،ہمیں افغانستان سے، ایران سے اور انڈیا سے امن قائم کرنا ہوگا، افغانستان کی خودمختاری کا احترام کیا جائے ، ورنہ بربادی ہو سکتی ہے۔

توبہ کرلیں۔جمعہ کے روز برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ، محمود خان اچکزئی نے کہا کہہم کشمیر میں استصواب رائے پر مٴْصر ہیں، ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں، لوگ غریب مر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے پڑوسیوں سے حالات ٹھیک کرنا ہوں گے،ہم کشمیر کے معاملے پر ایک نئی راہ کیوں نہیں اپناتے، اسے آزاد کر دیں، انڈیا بھی اور پاکستان بھی ،کشمیر جھگڑے کی جڑ ہے۔

اسے حل کرنے کے لیے اختراع ہم کیوں نہیں کرتی اس سوال پر کہ کیا انڈیا اپنے کنٹرول والا کشمیر چھوڑنے پر رضامند ہوجائے گا محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا، 'نہ ہو لیکن ہم تو بچ جائیں گے، کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو پہل کرتے ہوئے کشمیر کو آزاد کرنے کی تجویز رکھنی چاہیے، مسئلہ کشمیر کا حل اس کی آزادی ہے، دونوں حصوں میں بٹے کشمیر کو آزاد کرنے کی بات سے پاکستان دنیا کو بتا سکے گا کہ وہ مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے،کشمیر جھگڑے کی جڑ ہے،اسے حل کرنے کے لیے اختراع ہم کیوں نہیں کرتی محمود خان اچکزئی نے کہا کہامریکہ اور جہاد کے حامیوں کی مدد سے یہاں لاکھوں غیرملکیوں کو تربیت دی گئی۔

میرا خیال ہے کہ امریکہ اور ہمارے ملک کے کرتا دھرتا یہ جانتے ہیں کہ انھوں نے کس کس کو تربیت دی ہے، بس اب ان سے چھٹکارا حاصل کرلیں، ختم کر دیں۔ ختم نہیں کریں گے تو اس خطے کو آگ لگے گی ،افغانستان میں سوویت فوجیں آئیں تو دنیا کے لیے مسئلہ پیدا ہوا اس کے لیے یہ سب کچھ بنا۔ اب ہمیں توبہ کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی بیوقوفی ہوگی کہ ہم اپنے مخالف سے امید کریں کہ وہ مداخلت نہیں کرے گا۔

ہم سی پیک نہیں بنا سکیں گے اگر امن نہیں ہوگا۔ ہمیں افغانستان سے، ایران سے اور انڈیا سے امن قائم کرنا ہوگا، افغانستان کی خودمختاری کا احترام کیا جائے ، ورنہ بربادی ہو سکتی ہے۔ توبہ کرلیں، ہماری اسٹیبلشمنٹ پیچھے چلی جائے، الیکشن میں مداخلت نہ کریں، سیف ہاؤسز کے تماشے بند کردیں، لوگوں پر اعتماد کریں، جو جیت کر آتا ہے اس پر اعتماد کریں، پاکستان پر افغانستان میں مداخلت کا الزام ہے اور انھیں یقین ہے کہ افغانستان سے بھی پاکستان میں مداخلت ہو رہی ہے،پاکستان اگر اخلاص سے کام کرے تو افغانستان کے 60 فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں، پاکستان کا ایک مضبوط وفد افغانستان جا رہا تھا، تو اس وقت احسان اللہ احسان کو ٹی وی پر کیوں بٹھا دیا گیا ' کیا پیغام دینا چاہتے تھے ہم اس وقت انہوں نے کہا کہ 'ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا ملک ٹوٹا۔

دنیا بھر میں اقلیتیں تحریکیں چلاتی ہیں اور اعتراض کرتی ہیں لیکن ہم سے اکثریت بھاگ گئی۔ بار بار انھوں نے کہا ہم 55 فیصد ہیں ہمیں حقوق دو، ہماری زبان کو اہمیت دو، لیکن ہم نہیں مانے، بدقسمتی ہے کہ ہم یہاں لیڈر ایجاد کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان کا واحد علاج یہ ہے کہ یہاں ہر ادارہ اپنی حدود میں رہے اور آئینی طور پر آزاد ہو۔ فوج اپنے دائرے میں ہو، صحافی اپنے دائرے میں ہوں، سیاست اپنے دائرے میں اور دوسرے ادارے اپنے دائرے میں رہے ، پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہو، اور پاکستان کی تمام داخلی اور خارجی پالیسیاں قومی اسمبلی میں جنم لیں۔

'جو یہ کرتا ہے وہ پاکستان کا دوست ہے اور جو نہیں کرتا وہ پاکستان کی بربادی کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام دنیا اس بات پر متفق ہے کہ دنیا میں حکمرانی کا بہترین نظام جمہوریت ہے، ملک کو چلانے کا طریقہ کار ہوتا ہے، ملک کو چلانے کے لیے آئین ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں آئین کی تاریخ بہت بری رہی ہے، لمبے عرصے تک بننے ہی نہیں نہیں دیا گیا۔

آخر بنا تو اس کو بار بار توڑا گیا،آئین کی پاسداری ہر شخص پر لازم ہے، چاہے وہ وردی پوش ہو، چاہے وہ ملا ہے، چاہے وہ پیر ہے، فقیر ہے، چاہے اس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے یا بندوق آئین سب کے لیے لازمی طور پر محترم ہونا چاہیے، قائد اعظم کی اگست 1947 کی ان کی تقریر بڑی واضح ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اب ہمیں ماضی کو بھول جانا چاہیے، ہمیں ہر انسان کے عقیدے کا احترام کرنا ہوگا۔

ہر شخص جو پاکستان کا شہری ہے وہ قانون کی نظر میں برابر ہے،پاکستان کو چلانے اور اس کو اچھا مقام دلانے کے لیے ضروری ہے کہ یہ ایک شفاف وفاقی جمہوریت ہو،پاکستان میں سب ایک لوگ نہیں ہیں، مختلف زبانیں ہیں، مختلف کلچر ہیں، یہ کثیرالقومی اور کثیرالثقافتی ملک ہے۔ ’اس میں بلوچ، پشتون، سندھی، سرائیکی، پنجابی سب اپنے اپنے تاریخی مادر وطن میں رہ رہے ہیں۔

‘بلوچستان میں جاری حکومت مخالف عسکریت پسند تحریک پر بات کرتے ہوئے، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ بلوچ اور پشتون بہت غریب لوگ ہیں۔ صوبے کے وسائل بہت زیادہ ہیں مگر انھیں گیس تک نہیں دی گئی، کون آپ کو لوٹنے کے لیے چھوڑے گا وہ کیا آپ کو اپنے خزانے لینے دیں گے۔ آج یہ اعلان کریں کہ جن کے جو وسائل ہیں ان پر مقامی لوگوں کا حق ہے، تو ساری مزاحمت ختم ہوجائے گی، اس طرح جنھوں نے ملک چلایا، وہ تباہ ہوگئے۔'