مشرف کو بھیجنے والے طاقتور جمہوریت کمزور تھی، خواجہ سعد رفیق

ہمیں نفرت، تعصب، سازش کا نشانہ بنایا گیا ، یہ رویہ ٹھیک نہیں، گونگے بہرے نہیں تھے گیلانی کی طرح چپ چاپ گھر چلے جاتے، وزیر ریلوے جو سمجھتے تھے کلہاڑا چلنے سے نواز شریف کی مقبولیت میں کمی آئے گی ان کے اندازے غلط نکلے، جب عوام ہمیں مینڈیٹ دیتی ہے تو حکومت بچانا ، حکومت چلانا ہماری ذمہ داری ہوتا ہے ، انٹرویو

جمعہ 18 اگست 2017 22:48

مشرف کو بھیجنے والے طاقتور جمہوریت کمزور تھی، خواجہ سعد رفیق
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 اگست2017ء) وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کو بھیجنے والے طاقتور جمہوریت کمزور تھی۔ مشرف کو روک نہیں سکے۔ ہمیں نفرت، تعصب اور سازش کا نشانہ بنایا گیا ۔ یہ رویہ ٹھیک نہیں ۔ گونگے اور بہرے نہیں تھے کہ گیلانی کی طرح چپ چاپ گھر چلے جاتے جو سمجھتے تھے کہ کلہاڑا چلنے سے نواز شریف کی مقبولیت میں کمی آئے گی ان کے اندازے غلط نکلے۔

جمعہ کے روز نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ نواز شریف وقت آنے پر نام لیں گے۔ ملک میں ایک اور لڑائی چھیڑنا نہیں چاہتے۔ نواز شریف خود حکومت میں نہیں رہے مگر وفاق پنجاب، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔

(جاری ہے)

وہ حکومت چلانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ جب عوام ہمیں مینڈیٹ دیتی ہے تو حکومت بچانا اور حکومت چلانا ہماری ذمہ داری ہے۔

بعض اوقات حکومت کو حکتم اور تدبر سے چلانا پڑتا ہے۔ نام لینے کی اتنی جلدی کیا ہے اس میں دیر کی جانی چاہیئے۔ مشرف نواز شریف کا فیصلہ ہی نہیں بلکہ پوری جماعت کا فیصلہ ہے۔ ہمیں لوگوں تک اپنی بات پہنچانی ہے اور تصادم سے گریز کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے پڑھے لکھے، ڈھائی مرلہ، سڑک کے قریب جگوں میں رہنے والوں کو نواز شریف کی نا اہلی کی وجہ نظر آ رہی ہے۔

نواز شریف نے جب اسلام آباد سے لاہور کا سفر کیا اور لاکھوں افراد نے نواز شریف کا ساتھ دیا تو ان کو نواز شریف کی نا اہلی کی سمجھ آ رہی ہے کیونکہ یہ پہلی دفعہ نہیں تین دفعہ ہو چکا ہے۔ جس ملک کے پاس اتنی بڑی فوج ہے فوج ایک فعال قومی سرکاری ادارہ ہے۔ حکومت کسی اچھے کام میں فوج کو استعمال کر سکتی ہے جس میں کوئی قباحتنہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں۔

مگر صرف ہم ہی نہیں غلطی کرتے اور بھی لوگ غلطیاں کرتے ہیں۔ حکومت کو بچاتے بچاتے آدھی مدت گزر جاتی ہے۔ دھرنا ون اور دھرنا ٹو کسی کی خواہشات تھی۔ سیاست کو ریسلنگ کا کھیل نہیں داؤ گیرا دیا۔ پاکستان جیسا ملک جہاں چار مارشل لاء لگ چکے ہوں۔ ماضی میں آپ کی دو حکومتیں توڑی جا چکی ہوں تو پھر تیسری دفعہ میں انسان ہزار بار سوچتا ہے کہ میں جتنا بھی سیدھا چل لو میرے پر یہی الزام لگایا جائیگ ا ان کی اس سے بنتی نہیں ہے جب سر پر پڑتی ہے سب کچھ بھول جاتا ہے۔

سعد رفیق نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے معاملے کو دیکھ لیں۔ میں نے خود کہا کہ اگر مشرف ملک سے باہر چلا گیا تو ہم قوم کو کیا جواب دیں گے۔ ہماری پارٹی میں دو رائے تھی۔ اکثریت میں کہتے تھے نہیں جانے دینا چاہیئے۔ بعض کہتے تھے نہیں جانے دیا تو بھگتو گے۔ جمہوری نظام خطرے میں پڑ جائے گا۔ پارٹی کی اکثریتی فیصلے کے باعث مشرف کا باہر جانا رک گیا۔

مشرف کو روکا تو اثرات آنے لگ گئے۔ ملک میں جمہوریت اتنی مضبوط نہیں جتنی دکھتی ہے مشرف کو باہر لے جانے والے طاقت ور تھے اور ہم اکیلے کمزور تھے اس لئے مشرف کو روک نہ سکے۔ ہمارے خلاف سازشوں کا تعلق مشرف سے نہیں بلکہ مشرف کی بدروح سے ہے۔ جو مرتی نہیں ہے۔ پرویز رشید نے درست کہا کہ ہم مشرف کو روک نہیں سکے۔ ہمیں نفرت ، سازش، انتقام اور تعصب کا نشانہ بنایا گیا۔

نواز شریف کے ساتھ مسئلہ ہے۔ حکومت کیس اتھ نہیں کیونکہ ملک میں نواز شریف مشہور لیڈر ہیں بے نظیر بی بی بچی نہیں۔ الطاف حسین کراچی کی حد تک تھے۔ انہوں نے اپنا کباڑہ خود نکالا۔ جبکہ آصف علی زرداری مشہور لیڈر تھے ہی نہیں۔ پیچھے بچا عمران خان ۔ مجھے لگتا ہے اب عمران خان کی باری ہے جو میں تکلیف سے کہہ رہا ہوں۔ سمجھا جا رہا تھا کہ جب کلہاڑی چلے گی تو نواز شریف کی مقبولیت میں کمی آئے گی۔

میرا لیڈر ہو یا دوسری پارٹی کا لیڈر ہو جس نے بھی آمریت کا ساتھ دیا اس نے غلطی کی۔ گلطی کرنے میں نواز شریف اور ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل ہیں۔ ایک بار کی گلطی کو معاف کر دینا چاہیئے مگر جو بار بار غلطیاں کرتا ہے اس کو معاف نہیں کرنا چاہیئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی پارٹیاں2018کے انتخابات کی تیاری کر رہی ہیں۔ آصف علی زرداری نے جو کچھ کیا وہ بھی انتخابات کو مد نظر رکھ کر کیا۔

نواز شریف نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکھیں بند کر کے اعتماد کیا جس کی سزا بھگتی مگر ہم اب اس کو ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ نواز شریف کی نا اہلی پر بہت دل دکھا ہوا ہے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست میں فل بنچ بنانے کی استدعا بھی کی اگر فل بنچ نہ بنا تو دیگر آپشن استعمال کریں گے۔ ہماری بہت تضحیک اور تذلیل کی گئی جس کا کسی کو نہ حق حاصل تھا اور نہ آئین اور قانون اجازت دیتا ہے۔

لوگوں کا خیال تھا کہ یہ گنگے بہرے بن کر لاہور چلے جائیں گے مگر ہم گنگے بہری نہیں ہیں۔ سعد رفیق کا مزید کہنا تھا کہ ہم نئے ائینی پیکج کی تیاری کی طرف بڑھر ہے ہیں جس میں تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی جو نواز شریف کے ساتھ ہوا آئندہ حکومتوں کے ساتھ نہ ہو۔ جو کمی میثاق جمہوریت میں رہ گئی تھی وہ اس آئینی پیکج میں پوری کی جائے گی۔ چاہتے ہیں آئینی پیکج میں ریاست کے تمام طاقتور طبقات کے لئے قانون یکساں ہو۔