اکادمی ادبیات نے پاکستانی زبانوں سے بین الاقوامی زبانوں اور بین الاقوامی زبانوں سے پاکستانی زبانوں میں تراجم کا ایک وسیع منصوبہ تیار کیا ہے،ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو

جمعہ 18 اگست 2017 17:39

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 اگست2017ء) اکادمی ادبیات پاکستان نے پاکستانی زبانوں سے بین الاقوامی زبانوں اور بین الاقوامی زبانوں سے پاکستانی زبانوں میں تراجم کا ایک وسیع منصوبہ تیار کیا ہے جس کے پہلے مرحلہ میں بین الاقوامی ادب سے کتابیں اردو میں جبکہ اردو سے کتابیں انگریزی میں شائع کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلہ کی کتاب 21 ویں صدی کے نوبل انعام یافتگان کی منتخب کہانیاں شائع ہو گئی ہیں۔

یہ بات چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو نے نوبل انعام یافتہ ادیبوںکی منتخب کہانیاں کی اشاعت کے مو قع پر کہی۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب 2001-15ء تک کے نوبل انعام یافتہ ادیبوں کی کہانیوں پر مشتمل ہے۔ 20 ویں صد ی کے نوبل انعام یافتہ ادیبوں کی کہانیاں پہلے شائع ہو چکی تھی، اس لئے اکادمی نے 21 ویں صدی کے ادیبوں کی منتخب کہانیوں کی کتاب شائع کی ہے۔

(جاری ہے)

اکادمی ادبیات پاکستان کے قیام کا مقصد جہاں ایک طرف پاکستانی زبانوں کے ادب کی ترویج و اشاعت ہے وہیںیہ بات بھی اس کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ بین الاقوامی ادب کو پاکستانی زبانوں خاص طورپر اردو میں ترجمہ کرائے تاکہ ہماری زبانوں کے علمی و ادبی سرمائے میں اضافہ کے ساتھ ساتھ پاکستانی ادبی قارئین دنیا بھر میں تخلیق ہونے والے ادب سے روشناس ہونے کے ساتھ استفادہ بھی کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم دنیا کی بڑی زبانوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا کی زیادہ بڑی زبانیں وہی ہیں جن میں دوسری زبانوں کے علمی و ادبی سرمائے کے زیادہ سے زیادہ تراجم ہوئے ہیں۔ آج انگریزی زبان ادبی لحاظ سے محض اس لئے پوری دنیا پر چھائی ہوئی ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں جب بھی کوئی قابل ذکر ادبی کتاب چھپ کر منظر عام پر آتی ہے تو اس کا انگریزی میں فوراً ترجمہ ہو جاتا ہے۔

اب ان ممالک میں بھی جہاں انگریزی زبان نصاب کے طور پر نہیں پڑھائی جاتی، انگریزی سیکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف ہماری زبان اردو ، جو بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے، اسے سیکھنے کی طرف مائل ہونے والے بہت کم ہیں کیونکہ اس میںعلمی و ادبی سرمائے کا وہ ذخیرہ موجود نہیں جو دنیا کی تمام بڑی زبانوں کا خاصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تراجم فکشن نگار اور مترجم نجم الدین احمد نے کیے ہیں۔ نجم الدین احمد نہ صرف تخلیقی طور پر متحرک ہیں بل کہ بطور مترجم بھی وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ اس سے قبل وہ منتخب امریکی کہانیاں بھی ترجمہ کر چکے ہیں۔علاوہ ازیں ان کی ترجمہ کردہ کہانیاں اکادمی ادبیات پاکستان کے سہ ماہی مجلے ’’ادبیات‘‘ میں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب میںکہانیوں کے ساتھ ساتھ تخلیق کار کا تفصیلی تعارف دیا گیا ہے تا کہ قارئین کہانیوں کے پس منظر سے آگاہ ہو سکیں۔ اس کتاب کی380صفحات اور اس کی قیمت مبلغ400/-روپی(غیر مجلد) ہے۔کتاب مارکیٹ ، اکادمی کی بُک شاپ اور اکادمی کے ریجنل دفاتر پر دستیاب ہے۔

متعلقہ عنوان :