پاکستان پہل کرتے ہوئے کشمیر سے دستبردار ہوجائے۔پاکستانی قومیت کا کوئی تصور نہیں یہاں سب لوگ نسلاً الگ الگ ہیں، مختلف زبانیں اور مختلف کلچر ہیں اور یہ ”کثیر قومی“ اور کثیر ثقافتی ملک ہے ۔حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے اتحادی محمود خان اچکزئی

افغانستان کی خودمختاری کا احترام کیا جائے ، ورنہ بربادی ہو سکتی ہے۔ توبہ کرلیں، ہماری اسٹیبلشمنٹ پیچھے چلی جائے، الیکشن میں مداخلت نہ کریں، سیف ہاوسز کے تماشے بند کردیں، لوگوں پر اعتماد کریں، جو جیت کر آتا ہے اس پر اعتماد کریں۔برطانوی نشریاتی ادارے سے انٹرویو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 18 اگست 2017 15:13

پاکستان  پہل کرتے ہوئے کشمیر سے دستبردار ہوجائے۔پاکستانی قومیت کا ..
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 اگست۔2017ء)حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے اتحادی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہاہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے پاکستان کو پہل کرتے ہوئے کشمیر سے دستبردار ہوجائے۔ دو حصوں میں منقسم کشمیر کو آزاد کرنے کی بات سے پاکستان دنیا کو بتاسکے گا کہ وہ یہ مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا بھارت مقبوضہ کشمیر سے دست بردار ہونے پر تیار ہوجائے گا، تو محمود اچکزئی نے کمال بے نیازی سے کہا کہ بھارت اس کے لیے تیار نہ بھی ہو ”لیکن ہم تو بچ جائیں گے۔“ انہوں نے کہا کہ ہم کشمیر کے معاملے پر ایک نئی راہ کیوں نہیں اپناتے؟ پاکستان اور بھارت، دونوں ہی کشمیر کو آزاد کردیں کیونکہ یہ جھگڑے کی جڑ ہے۔

(جاری ہے)

ہم استصواب رائے پر زور دے رہے ہیں، ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں، غریب لوگ مر رہے ہیں۔

ہمیں اپنے پڑوسیوں سے حالات ٹھیک کرنا ہوں گے۔ انہوں نے سی پیک کی تکمیل کو علاقائی امن سے مشروط کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو افغانستان، ایران اور بھارت کے ساتھ لازمی طور پر امن قائم کرنا ہوگا۔برطانوی نشریاتی ادارے سے انٹرویومیں انہوں نے پاکستانی قوم کے تصور کی نفی کرتے ہوئے محمود اچکزئی نے کہا کہ پاکستان میں سب لوگ نسلاً الگ الگ ہیں، مختلف زبانیں اور مختلف کلچر ہیں اور یہ ”کثیر قومی“ اور کثیر ثقافتی ملک ہے جس میں بلوچ، پشتون، سندھی، سرائیکی، پنجابی، سب اپنے اپنے تاریخی مادر وطن میں رہ رہے ہیں۔

افغانستان کے حالیہ مسائل کی زیادہ ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان خلوصِ نیت کام کرے تو افغانستان کے 60 فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں انتخابی اصلاحات بل پر بحث کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے کہا کہ 1970 کے بعد ملک میں کبھی شفاف انتخابات نہیں ہوئے۔ یہاں بچوں کو پہلے کرپٹ کیا جاتا ہے پھر فائل بنا کر بلیک میل کیا جاتا ہے، کیا آئی جے آئی بناتے وقت کسی نے آرٹیکل 62۔

63 کا خیال کیا؟ کیا پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے والے صادق اور امین تھے۔ جو لوگ سیاست دانوں کو پیسے دینے کا اعتراف کرتے ہیں ان سے اس بارے پوچھا جانا چاہیے۔ تمام ادارے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کریں۔ ہمیں اپنی داخلی اور خارجی سمیت تمام پالیسیاں پارلیمنٹ میں بنانی چاہئیں، ہمیں سب کچھ داوپر لگا کر ایوان کی بالا دستی قائم کرنا ہو گی۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ، محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کو پہل کرتے ہوئے کشمیر کو آزاد کرنے کی تجویز رکھنی چاہیے۔اپنے انٹرویو میں محمود خان اچکزئی نے کہا ہم کشمیر کے معاملے پر ایک نئی راہ کیوں نہیں اپناتے، اسے آزاد کر دیں، انڈیا بھی اور پاکستان بھی کشمیر جھگڑے کی جڑ ہے۔ اسے حل کرنے کے لیے اختراع ہم کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا کہ ہم استصواب رائے پر م±صر ہیں، ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں، لوگ غریب مر رہے ہیں۔

ہمیں اپنے پڑوسیوں سے حالات ٹھیک کرنا ہوں گے۔ایک سوال کے جواب میں پختون قوم پرست رہنما نے کہا کہ یہ انتہائی بیوقوفی ہوگی کہ ہم اپنے مخالف سے امید کریں کہ وہ مداخلت نہیں کرے گا۔ ہم سی پیک نہیں بنا سکیں گے اگر امن نہیں ہوگا۔ ہمیں افغانستان سے، ایران سے اور انڈیا سے امن قائم کرنا ہوگا۔ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی پر بات کرتے ہوئے، محمود خان اچکزئی نے کہا کہ افغانستان میں سوویت فوجیں آئیں تو دنیا کے لیے مسئلہ پیدا ہوا اس کے لیے یہ سب کچھ بنا۔

اب ہمیں توبہ کرنی ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ اور جہاد کے حامیوں کی مدد سے یہاں لاکھوں غیرملکیوں کو تربیت دی گئی۔ میرا خیال ہے کہ امریکہ اور ہمارے ملک کے کرتا دھرتا یہ جانتے ہیں کہ انھوں نے کس کس کو تربیت دی ہے، بس اب ان سے چھٹکارا حاصل کرلیں، ختم کر دیں۔ ختم نہیں کریں گے تو اس خطے کو آگ لگے گی۔انھوں نے کہا کہ افغانستان کی خودمختاری کا احترام کیا جائے ، ورنہ بربادی ہو سکتی ہے۔

توبہ کرلیں، ہماری اسٹیبلشمنٹ پیچھے چلی جائے، الیکشن میں مداخلت نہ کریں، سیف ہاوسز کے تماشے بند کردیں، لوگوں پر اعتماد کریں، جو جیت کر آتا ہے اس پر اعتماد کریں۔محمود خان اچکزئی کے مطابق پاکستان پر افغانستان میں مداخلت کا الزام ہے اور انھیں یقین ہے کہ افغانستان سے بھی پاکستان میں مداخلت ہو رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان اگر اخلاص سے کام کرے تو افغانستان کے 60 فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

انھوں نے سوال کیا کہ پاکستان کا ایک مضبوط وفد افغانستان جا رہا تھا، تو اس وقت احسان اللہ احسان کو ٹی وی پر کیوں بٹھا دیا گیا؟ کیا پیغام دینا چاہتے تھے ہم اس وقت؟انہوں نے کہا کہ ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا ملک ٹوٹا۔ دنیا بھر میں اقلیتیں تحریکیں چلاتی ہیں اور اعتراض کرتی ہیں لیکن ہم سے اکثریت بھاگ گئی۔ بار بار انھوں نے کہا ہم 55 فیصد ہیں ہمیں حقوق دو، ہماری زبان کو اہمیت دو، لیکن ہم نہیں مانے۔

انھوں نے کہا بدقسمتی ہے کہ ہم یہاں لیڈر ایجاد کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان کا واحد علاج یہ ہے کہ یہاں ہر ادارہ اپنی حدود میں رہے اور آئینی طور پر آزاد ہو۔ فوج اپنے دائرے میں ہو، صحافی اپنے دائرے میں ہوں، سیاست اپنے دائرے میں اور دوسرے ادارے اپنے دائرے میں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہو، اور پاکستان کی تمام داخلی اور خارجی پالیسیاں قومی اسمبلی میں جنم لیں۔

جو یہ کرتا ہے وہ پاکستان کا دوست ہے اور جو نہیں کرتا وہ پاکستان کی بربادی کا ذمہ دار ہے۔محمود خان اچکزئی کے مطابق تمام دنیا اس بات پر متفق ہے کہ دنیا میں حکمرانی کا بہترین نظام جمہوریت ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کو چلانے کا طریقہ کار ہوتا ہے، ملک کو چلانے کے لیے آئین ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں آئین کی تاریخ بہت بری رہی ہے، لمبے عرصے تک بننے ہی نہیں نہیں دیا گیا۔

آخر بنا تو اس کو بار بار توڑا گیا۔آئین کی پاسداری ہر شخص پر لازم ہے، چاہے وہ وردی پوش ہو، چاہے وہ ملا ہے، چاہے وہ پیر ہے، فقیر ہے، چاہے اس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے یا بندوق آئین سب کے لیے لازمی طور پر محترم ہونا چاہیے۔بانی پاکستان محمد علی جناح کے ملک کے بارے میں وژن پر بات کرتے ہوئے، محمد خان اچکزئی نے کہا 11 اگست 1947 کی ان کی تقریر بڑی واضح ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اب ہمیں ماضی کو بھول جانا چاہیے، ہمیں ہر انسان کے عقیدے کا احترام کرنا ہوگا۔

ہر شخص جو پاکستان کا شہری ہے وہ قانون کی نظر میں برابر ہے۔پاکستان کو چلانے اور اس کو اچھا مقام دلانے کے لیے ضروری ہے کہ یہ ایک شفاف وفاقی جمہوریت ہو۔انھوں نے کہا پاکستان میں سب ایک لوگ نہیں ہیں، مختلف زبانیں ہیں، مختلف کلچر ہیں، یہ کثیرالقومی اور کثیرالثقافتی ملک ہے۔ ’اس میں بلوچ، پشتون، سندھی، سرائیکی، پنجابی سب اپنے اپنے تاریخی مادر وطن میں رہ رہے ہیں۔

بلوچستان میں جاری حکومت مخالف عسکریت پسند تحریک پر بات کرتے ہوئے، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ بلوچ اور پشتون بہت غریب لوگ ہیں۔ صوبے کے وسائل بہت زیادہ ہیں مگر انھیں گیس تک نہیں دی گئی۔کون آپ کو لوٹنے کے لیے چھوڑے گا؟ وہ کیا آپ کو اپنے خزانے لینے دیں گے۔ آج یہ اعلان کریں کہ جن کے جو وسائل ہیں ان پر مقامی لوگوں کا حق ہے، تو ساری مزاحمت ختم ہوجائے گی۔ اس طرح جنھوں نے ملک چلایا، وہ تباہ ہوگئے۔