بیک چینل رابطے : ن لیگ ،پی پی بریک تھرو میں بلاول رکاوٹ

(ن) لیگ نے آئینی ترمیم کے بدلنے زرداری کو صدر بنانے کا آپشن بھی دے دیا ، جنرل راحیل کی زیر قیادت قومی حکومت اور احتساب کی خبریں درست نہیں ہیں : ذرائع لاہور

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعہ 18 اگست 2017 13:15

بیک چینل رابطے : ن لیگ ،پی پی بریک تھرو میں بلاول رکاوٹ
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18 اگست 2017ء) : مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان بیک چینل رابطے جاری ہیں کسی بڑے بریک تھرو میں بلاول بھٹو زرداری رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف موجودہ سیاسی صورتحال میں پیچھے ہٹنے کا کوئی اراد ہ نہیں رکھتے ، وہ مخالف قوتوں کا مقابلہ کرنے کے فیصلے پر قائم ہیں ، وہ پارٹی میں ان لوگوں کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں جو ان کے ہم خیال ہیں اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کو ٹکراؤ کی سیاست سے بچتے ہوئے پارٹی کو بچانا چاہیے، انہیں مشاورت کے لئے بھی نہیں بلایا جا رہا۔

ذرائع کے مطابق زرداری کے بیانات کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رابطے جاری ہیں اور (ن) لیگ پیپلز پارٹی کو باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی باری ہے اور اگر انہوں نے ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیا تو پھر زرداری کو بھی نا اہل کر دیا جائے گا ۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے (ن) لیگ کی طرف سے مختلف آپشنز دیئے جا رہے ہیں جن میں صد ر بنانے کا بھی آپشن موجود ہے کیونکہ اس طرح سے زرداری کو استثنی حاصل ہو جائے گا اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر کے رخصت ہوجائیں گی لیکن وہ اگلے پانچ سال تک صدر رہیں گے اور آئندہ کے انتخابات میں جس پارٹی کی اکثریت ہو گی وہ حکومت بنا لے گی اور ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں نہیں کی جائیں گی۔

ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ بلاول اور کچھ سینئر پارٹی رہنماء بھی شامل ہیں تاہم اگر بلاول بھٹو مان گئے تو معاملات طے پانے کے قومی امکانات ہیں ۔ سیاسی ماحول گرم ہو چکا ہے کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو بھی لاہور میں ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ اس وقت سیاست کی بساط پر سب سے زیادہ اہمیت ان کی ہے اگر وہ مسلم لیگ (ن)کا ساتھ دیتے ہیں تو انہیں کافی ریلیف مل سکتا ہے اور وہ جو ترامیم لانا چاہتے ہیں ان میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ اسفندیار ولی ، مولانا فضل الرحمن ، محمود اچکزئی اور شیر پاؤ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں ۔

جبکہ ایم کیو ایم سے معاملات کے لئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی خود کراچی گئے اور 25 ارب روپے کے پیکج کا بھی اعلان کیا ۔ ایسے میں پیپلز پارٹی ہی وہ جماعت ہے جس کی مسلم لیگ ن کو ضرورت ہے اور اگر ایسے وقت میں انہوں نے نواز شریف کی مدد نہ کی تو امکان ہے کہ مستقبل میں دونوں ایک دوسرے کی مدد کے قابل نہ رہیں ۔ ذرائع نے بتایا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی قیادت میں تین سال کے لئے پرانے سیاستدانوں ، بیورو کریٹس اور ریٹائرڈ جنرلز پر مشتمل قومی نگران حکومت بنا کر سب کا احتساب کرنے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔

راحیل شریف کچھ عرصے بعد اپنے گھر آتے ہیں اور ان کے ساتھ دو سعودی ہوتے ہیں اور بھی نجے دورے پر آئیں ہیں اس کا قومی نگران حکومت بنانے کا کوئی تعلق نہیں۔ ان کے پاس پانچ سال کا کنٹریکٹ ہے جس کے دوران وہ ایسا کوئی کام نہیں کر سکتے ، اگر سسٹم کو لپیٹنا ہو تا تو نواز شریف کو سپر یم کورٹ سے نا اہل کروانے کی کیا ضرورت تھی اس لیے نظام چلتا رہے گا جب تا سیاستدان خود نہ چاہیں کہ نظام کو لپیٹ دیا جائے ۔