کبھی وقت آئیگا تو سازش کے کرداروں بارے تفصیل سے بات کرونگا،تشخیص کر لی ووٹ کی توقیر کا نہ ہونا ہی ملک کی تباہی کا نسخہ ہے ‘ نواز شریف

اگر ووٹ کو ایسے ہی پھاڑ کر قوم کے منہ پر دے مارا گیاتو کیا ہم ترقی کر سکیں گے ، کیا ایسے قومیں بنتی ہیں اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے میں اداروں کے ٹکرائو کے حق میں نہیں ہو ں لیکن یہ میری اکیلے کی ذمہ داری نہیں سب کی ذمہ داری ہے، پارلیمنٹ کو چاہیے سب کو مانیٹر کرے اگر ملک کو آگے لے جانا ہے تو سمت کا تعین کیا جائے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم ووٹ کی توقیر کر لیں گے‘ سابق وزیر اعظم

جمعرات 17 اگست 2017 21:38

کبھی وقت آئیگا تو سازش کے کرداروں بارے تفصیل سے بات کرونگا،تشخیص کر ..
5لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 اگست2017ء) سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ کبھی وقت آئے گا تو سازش کے کرداروں کے بارے میں تفصیل سے بات کروں گا، میں اداروں کے ٹکرائو کے حق میں نہیں ہو ں لیکن یہ میری اکیلے کی ذمہ داری نہیں سب کی ذمہ داری ہے، پارلیمنٹ کو چاہیے کہ وہ سب کو مانیٹر کرے ،ہم نے تشخیص کر لیا ہے کہ ووٹ کا تقدس اور توقیر کا نہ ہونا ہی ملک کی تباہی کا نسخہ ہے ،اگر ووٹ کو ایسے ہی پھاڑ کر قوم کے منہ پر دے مارا گیاتو کیا ہم ترقی کر سکیں گے ، کیا ایسے قومیں بنتی ہیں اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے اور یہ از خود ایک قربانی ہے ، میں وثوق سے کہتا ہوں کہ اپوزیشن اور حکومت میں ہوتے ہوئے کبھی بھی میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی نہیں کی ،تاہم مشرف اور فریقوں کے درمیان جو این آر ہواوہ نہیں ہونا چاہیے تھا یہ اس میثاق کے سپرٹ کے خلاف تھا ،اگر ملک کو آگے لے جانا ہے تو سمت کا تعین کیا جائے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم ووٹ کی توقیر کر لیں گے، ہم ووٹ کے تقدس کے لئے پوری جدوجہد کریں گے اور یہ ایک کاز ہے ۔

(جاری ہے)

ایک انٹر ویو میں نواز شریف نے کہا کہ 2013ء میں ہمیں بڑ ا واضح مینڈیٹ ملا اور ہماری حکومت قائم ہوئی ، ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کے بعد پی ٹی آئی تیسری نمبر پر تھی لیکن انہوںنے اچانک دھاندلی دھاندلی کی رٹ لگانی شروع کر دی اور اس پر دھرنا شروع کر دیا اور دھرنے میں ڈاکٹر طاہر القادری بھی کینیڈا سے بھاگے بھاگے آ گئے ،یہ لوگ وزیر اعظم ہائوس کے سامنے ،پارلیمنٹ کے گیٹ ، سیکرٹریٹ کے دروازوں تک پہنچ گئے تھے اور یہ کہا گیا کہ ہم وزیر اعظم کے گلے میں رسہ ڈال کر گھسیٹ کر وزیر اعظم ہائوس سے باہر نکالیں گے، یہ سب کچھ کیا تھا ، یہ افسوسناک منظر تھا ،ایسا ہوتا نہیں ہے ، جمہوریت تو کیا ہم نے ڈکٹیٹر شپ بھی ایسا کم ہی دیکھا ہے ، دھرنا ختم ہوا تو پانامہ آ گیا اور دھرنا IIدینے کی کوشش کی گئی ۔

اس وقت سی پیک زوروں پر تھا لیکن یہ اس سے متاثر ہوا ، اس کے باوجود ملک نے ترقی کی ،لوڈشیڈنگ کے اندھیرے ختم ہوئے ، پاکستان میں امن بحال ہوا ، کراچی کا امن بحال کیا ، ملک میں انفراسٹر اکچر زور پر ہے ۔ موٹر وے کے ذریعے کراچی تا پشاورمنسلک ہو رہے ہیں ، پاکستان کا گروتھ ریٹ اوپر جارہا ہے لیکن اس سے معیشت کو دھچکا لگا ،اس کا کون ذمہ دار ہی ۔

ان کا مقصد یہی تھا کہ نواز شریف کو کیوں ووٹ مل گیا ہے یہ کیوں وزیراعظم بنا اسے بس نیچے اتارا جائے ،ایسے میں باقی چیزوں کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے،کیا یہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کی سنجیدہ کوشش تھی یا جمہوریت کو تباہ کرنے کی کوشش تھی ،خاص طو رپر اس میںپی ٹی آئی آگے آگے تھی ،میں اسی کا ذکر کر رہا ہوں اور یہ بذات خود ایک سازش ہے ۔ بتایا جائے دھرنے کی کیا ضرور ت تھی اور یہ ایک ، تین یا دس دن نہیں بلکہ چار مارہ اس سے بھی زیادہ طویل تھا یہ کس لئے تھا ۔

اس کے کردار وں کے بارے میں کبھی وقت آئے گا تو تفصیل سے بات کروں گا ۔ نواز شریف نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پانامہ کا معاملہ آیا تو درخواست کو قبول نہیں کیا گیا لیکن پھر اس کیس کو لے لیا گیا ، چار مہینے یہ کیس چلا اس کے بعد جے آئی ٹی بنی ، یہ کس طرح اور کیسے بنی وٹس ایپ کی کہانی سب کو پتہ ہے ، یہ ہمارے کٹر مخالفین ،بد ترین مخالفوں پر مشتمل تھی لیکن میں بطور وزیر اعظم اور شہباز شریف بطور وزیر اعلیٰ پیش ہوئے ۔

میرے دو بیٹے ، بیٹی ، اسحاق ڈار پیش ہوئے ، میرے پورے خاندان بلکہ دادا سے لے کر پوتے تک سب کا احتساب ہو رہا ہے ، یہ بتائیں ہمارا کس بات کا احتساب ہو رہا ہے ۔ ہمارا کاروبار تو 1937ء سے چل رہا ہے ۔ اگر میںنے سرکاری پیسے کی خرد برد کی ہوتی تو آج میرا سر شرم سے جھکا ہوتا میں ایسے آنکھیں اٹھا کر بات نہ کر سکتا میں قوم کے سامنے شرمند ہ ہوتا ۔

کک بیک ، کمیشن ، رشوت ستانی یا کرپشن کا کوئی داغ دھبہ نہیں اور صرف ہمارے کاروباری معاملات کا احتساب ہو رہا ہے حالانکہ میں اس وقت سیاست میں بھی نہیں تھا۔ نواز شریف نے کہا کہ 70سال سے اس ملک میںیہی کھیل کھیلا جارہا ہے ، اس ملک کو چلانے والوں نے یہی کیا ہے ، ملک میںڈکٹیٹر آئے اور یہی تباہی کا نسخہ ہے جس کی ہم نے تشخیص کر لی ہے ، 70سال میں ملک کا ستیا ناس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ۔

اس کا آغاز ملک بننے کے 20سال بعد ہو گیا تھا جب پہلا حادثہ ہوا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن جاتا ہے اگر ہم آئین پر قائم رہتے عوام کا حق حکمرانی قائم ہوتا پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا بلکہ ہم آج سے دس گنا زیادہ طاقتور اور مضبوط ہوتے۔ جب ووٹ کی توقیر اور تقدس کو چھوڑ دیا گیا تو ملک ٹوٹ گیا لیکن ہم نے اب سب چیزوں سے سبق نہیں سیکھا ۔ پہلا مارشل لاء 1958ء میں نہ لگتا تو پھر دوسرا اورتیسرا بھی نہ لگتا ۔

یہاں 18وزرائے اعظم جبکہ تین ڈکٹیٹر آئے ۔وزرائے اعظم کو ڈیڑھ ڈیڑھ سال ملا جبکہ تین ڈکٹیٹرملک کے 33سال کھا گئے ،کیا یہ ظلم نہیں ہے کیا یہ عوام کی حکمرانی کا احترام ہے کیا یہ ووٹ کی توقیر ہے ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں فیکٹس پر بات کرتا ہوں ۔ فوج کا ایک حصہ میر ے خلاف کیوں ہوگا ،جب مشرف نے مارشل لاء لگایا تو وہ اوراس کے چند ساتھی خلاف تھے لیکن پوری فوج خلاف نہیں تھی بلکہ فوج کو تو پتہ ہی نہیں تھا اور مارشل لاء کے بعد پتہ چلا باقی فوج مشرف کے فیصلے کے حق میں نہیں تھی ۔

میں سمجھتا کہ بہت بڑا حصہ اس سے متفق نہیں تھا ۔ باقی مارشل لائوں میں بھی چند لوگوں نے فیصلے کئے اور اقتدار پر قبضہ کر کے حکمرانی سنبھال لی ،کیا یہ ووٹ کی توقیر ہے تقدس ہے اس کو پھاڑ دیا گیا اور قوم کے منہ پر دے مارا اس طرح سے ملک چلتے ہیں قومیں بنتی ہیں کیا ہم ایسے ترقی کر سکیں گے ہم آگے جانے کی بجائے پیچھے کی طرف بھاگنا شروع کر دیتے ہیں ، یہ پاکستان سے مذاق ہے ہم نے پاکستان کو لاحق مرض کی تشخیص کر لی ہے ،ووٹ کا تقدس نہ ہونے کی وجہ سے یہ ساری مصیبتیں مشکلیں جھیلنی پڑی ہیں ۔

میری کچھ کے ساتھ اچھی بنی ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ میں آئین سے پیچھے نہیں ہٹا اور اسے ٹریک پر رکھنے کی کوشش کی ، میرا آئین و قانون پر یقین ہے ۔ اگر کوئی آئین سے ہٹتا ہے تو میں اس سے اتفاق نہیں کرتا ۔ پالیسیاںحکومت کی ہیں لیکن سمت ہونی چاہیے اگر ملک کو آگے لے جانا ہے تو سمت کا تعین کیا جائے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم ووٹ کی توقیر کر لیں گے۔

انہوںنے کہا کہ ہم ووٹ کے تقدس کے لئے پوری جدوجہد کریں گے اور یہ پھیلتی جائے گی اور اس میں کمی نہیں ہے ،بڑی تعداد میری آئیڈیالوجی کے ساتھ ہے یہ ایک کاز ہے ۔ انہوںنے کہا کہ ایسا نہیں کہ مجھے اقتدار میں آنے کی کوئی جلدی ہے ، اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے ، یہ از خود قربانی ہے جو آپ دے رہے ہوتے ہیں ایک ایک دن بڑی مشکل سے گزرتا ہے لیکن یہ قوم کا مجھ پر قرض ہے۔

انہوںنے عمران خان کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ میں عمران خان کے بارے میں کیا کہوں ان کے بارے میں دنیا جاتی ہے میں ان کی باتوں کا جواب کیا دوں ۔ انہوںنے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارا کوئی ایکشن نہیں ۔ ہم نے میثاق جمہوریت کیا تھا اس پر بہت سی جماعتوں کے دستخط تھے ، میںوثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اپوزیشن اور حکومت میں ہوتے ہوئے اس کی خلاف ورزی نہیں کی ۔

مشرف اور فریقوں کے درمیان جو این آر او ہوا تھا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا وہ اس میثاق کے سپرٹ کے خلاف تھا ۔ ہم نے صدر زرداری کو عزت سے رخصت کیا ۔ ہم نے دھرنے کے دنوں میںاپوزیشن کے خلاف کوئی اقدامات نہیں اٹھائے بلکہ ہم نے ضبط اور صبر سے کام لیا حالانکہ دھرنے والے سرکاری اداروں پر چڑھ دوڑے پی ٹی وی کے اندر گھس گئے لیکن ہم نے برد باری کا مظاہرہ کیا ۔

انہوںنے کہا کہ ووٹ کا تقدس یقینی بنانا ہے ، کسی کو عوام کا مینڈینٹ پائوں تلے روندنے کی اجا زت نہیں ہو سکتی ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں تو ٹکرائو کے حق میں نہیں ہوں بلکہ مجھے نہیں سب کو ہونا چاہیے ، یہ میرے اکیلے کی ذمہ داری نہیں سب کی ذمہ داری ہے ، پارلیمنٹ سب کو مانیٹر کرے کہ یہاں اداروں کا ٹکرائو نہیں ہوناچاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ قوم نے میری نا اہلی کے فیصلے کو قبول نہیں کیا بلکہ قوم نے اپنا فیصلہ دیدیا ہے ۔ میں قانون کی عدالت میں گیا ہوں اور پیچھے نہیں ہٹا ، جے آئی ٹی جس پر میرے شدید ترین تحفظات تھے اس کے سامنے پیش ہوا ہوں لیکن جے آئی ٹی اور نا اہلی کے فیصلے کو قوم نے قبول نہیں کیا۔

متعلقہ عنوان :