وزارت سیفران نے فاٹا میں سمال ڈیمز کیلئے گرانٹ کو ناکافی قرار دے دیا

سمال ڈیمز کیلئے 10سے 12 ارب روپے کی گرانٹ کی ضرورت ہے ایک اعشاریہ آٹھ ارب روپے کی گرانٹ سے اگر کوئی ڈیم بنانے کا خیال رکھتا ہے تو وہ خوش فہمی میں مبتلاہے، ڈپٹی سیکرٹری سیفران طارق حیات کی قائمہ کمیٹی سیفران کو بریفنگ

جمعرات 17 اگست 2017 16:19

وزارت سیفران نے فاٹا میں سمال ڈیمز کیلئے گرانٹ کو ناکافی قرار دے دیا
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 17 اگست2017ء) وزارت سیفران نے فاٹا میں سمال ڈیمز کیلئے گرانٹ کو ناکافی قرار دے دیا۔ ایک اعشاریہ آٹھ ارب روپے کی گرانٹ سے اگر کوئی ڈیم بنانے کا خیال رکھتا ہے تو وہ خوش فہمی میں مبتلاہے ۔ سمال ڈیمز کے لئے کم سے کم 10سے 12 ارب روپے کی گرانٹ کی ضرورت ہے۔ ڈپٹی سیکرٹری سیفران طارق حیات نے فاٹا میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی سیفران کے چیرمین ہلال الرحمن کی زیر صدارت اجلاس میں بتایا کہ 2016 میں فاٹا میں 80 سے زائد سمال ڈیمز تعمیر کئے گئے ہیں، جبکہ فاٹا میں آئل اینڈ گیس کے بھی متعدد منصوبوں کی جانچ پڑتال ہو رہی ہے ۔

تاہم اب اگر کوئی ایک اعشاریہ آٹھ ارب روپے کی گرانٹ سے ڈیمز تعمیر کرنے کا خیال رکھتا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے وہ خوش فہمی میں مبتلا ہے ۔

(جاری ہے)

کمیٹی کو وزارت سیفران کے حکام نے مزید بتایا کہ پہاڑوں میں ڈیمز بنانا ایک مشکل کا م ہوتا ہے ، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ پانی کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لایا جائے اور علاقہ مکینوں کو سیلابی صورتحال سے بھی بچایا جائے۔

ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ڈیمز کی تعمیر ایسی جگہ کی جائے جہاں لوگوں کا نقصان نہ ہو یا کم سے کم ہو۔چیئرمین کمیٹی ہلال الرحمن نے کہا کہ فاٹا میں چھوٹے چھوٹے دیہاتوں کے لئے سمال ڈیمزکی ضرورت ہے تاکہ وہاں بجلی کی قلت کو پورا کیا جاسکے۔ سنیٹر تاج آفریدی نے کمیٹی میں استفسار کیا کہ فاٹا رولز کے مطابق گھریلو ضروریات کے لئے جنگلات کی کھٹائی پر مقامی افراد کا بھرپور حق ہے، کس اصول کے تحت آپ فاٹا میں جنگلات کی کھٹائی پر پابندی لگا سکتے ہیں ۔

قائمہ کمیٹی سیفران کو سی ای او ایف ڈی ایم اے فدا وزیرنے بریفنگ دیتے ہوئے بتایاکہ فاٹا میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی لگائی جا چکی ہے، خیبر پختونخواہ میں بھی جنگلات کی کھٹائی پر پابندی ہے۔کٹائی کی وجہ سے جنگلات کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ رہا ہے۔دوسری جانب کمیٹی اجلاس میں افغان کمشنریٹ کی313 ملازمین کی ریگولرائیزیشن کامعاملہ ایک مربتہ پھر کھائی میں پڑ گیا ۔

کمیٹی کو بتایاکہ افغان کمشنریٹ ملازمین نے استداء کی ہے کہ ہمارا کیس پہلے سے ہی اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن حل ہوچکا ہے، دوبارہ ملازمین کو طلب نہ کیا جائے ،تاہم نئے تعینات شدہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے افغان کمشنریٹ کے ملازمین کو 15 روز میں طلب کرکے تفصیلات پر بات کرنے کی یقین دہانی کرائی دی۔کمیٹی نے افغان کمشنریٹ کے ملازمین کو 15 روز کے بعد اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن سے تفصیلات موصول ہونے کی یقین دہانی کرادی ۔

اجلاس میں فاٹا ایجوکیشن میں بے ضابطگیوں پر بحث کرتے ہوئے سنیٹر تاج آفریدی نے کہا کہ فاٹا میں تعلیم کی بدحالی کی ذمہ صرف اور صرف فاٹا سیکریٹریٹ ہے، فاٹا کے تعلیم میں بڑے پیمانے پر خرد برد فاٹا سیکریٹریٹ کی جانب سے ہی کی جاتی ہے ۔ افسوسناک ہے کہ اب تک تعیناتی کا عمل شروع نہ ہو سکا ۔تعیناتی میں تاخیر سے تعلیم اور صحت کے شعبوں کو نقصان پہنچا ہے ۔

چئیرمین کمیٹی ہلال الرحمان نے کہاکہ فاٹا میں پانچ ہزار سے زائد ایس این ایز )schedule of new expenditure ) کی تعیناتی نہ ہونا قابل افسوس ہیایس این ایز کو اب تک فنڈز ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے دئیے جاتے ہیں ۔ایس این ایز کے فنڈز کا مستقل حل نکالنا ضروری ہے،سی ای او ایف ڈی ایم اے فدا وزیر کمیٹی میں جواب دیاکہ تعلیمی مسائل کو ہم ترجیحی بنیادوں پر حل کر رہے ہیں ، دوسری جانب بتایا کہ فاٹا سے 49 ہزار نوجوانوں کو ٹیکنیکل ٹریننگ دے دی جا چکی ہے۔

ٹریننگ حاصل کرنے والوں میں سے 26 لڑکیاں جبکہ 23 ہزار لڑکے ہیں ۔تربیت شدہ نوجوانوں جو تاحال بے روزگار تھے ان کومائیکروفائنانس کے ذریعے کاروبار کے لئے امداد بھی کی گئی ۔کمیٹی میں فاٹا میں فلور ملز کی بندش کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔ سنیٹر صالح شاہ نے کہاکہ گزشتہ کئی سالوں سے فاٹا کے تمام فلور ملز بند کی جا چکی ہیں، فلور ملز کی بندش کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آ رہی، خیبر پختونخواہ فوڈ حکام نے بتایاکہ فاٹا کی جانب سے ہمیں فوڈ سبسڈی کی جانب سے کروڑوں روپے واجب الادا ہیں ، ہمارا پرانا ادھار ادا کیا جائے ، چئیرمین کمیٹی ہلال الرحمن نے کہا کہ فاٹا کی سبسڈی کی ادائیگی تو مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے، سنیٹر اورنگزیب نے کہاکہ فاٹا کے عوام کو بھوک سے مروانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، فاٹا کے لئے گندم پر سبسڈی کی بجائے نرخ زیادہ لگایا جاتا ہے، کے پی کے فوڈ حکام نے کمیٹی کو بتایاکہ فوڈ کی مد میں فاٹا کی تمام ادائیگیاں مرکز کی جانب سے ادا کی جاتی ہیں، مرکز ہمارے 8 سو ملین روپے ادا کریں ہم اس تمام پابندیاں ہٹا لیں گے،چیرمین کمیٹی ہلال الرحمان کا پولیٹکل ایجنٹس کے طرز افسری اور اختیارات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قبائلی ایجنسی میں پولیٹیکل ایجنٹ بے تاج بادشاہ بنا ہوا ہے،بے گناہ لوگوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے، چھوٹی چھوٹی چیزوں پر پولیٹکل ایجنٹس کی جانب سے ٹیکسیشن لگانا افسوسناک ہے، تجویز کرتا ہوں کہ پولیٹکل ایجنٹس کے اختیارات سے متعلق اصول وضح کئے جائیں۔

متعلقہ عنوان :