حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والی پراسرار شخصیت کا نام سامنے آگیا

نام سربمہر لفافے میں اٹارنی جنرل کو بھجوا یا گیا ، جو انہوں نے گذشتہ روز وزیراعظم کو دے دیا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعرات 17 اگست 2017 14:47

حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والی پراسرار شخصیت کا نام سامنے آگیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 17 اگست 2017ء) :ایس ایم نامی شخص مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) کے ارکان کے ساتھ کام کر رہا تھا جس کی خدمات متعلقہ ادارے سے حاصل کر لی گئی تھیں جس کا انتظامی کنٹرول وزارت دفاع کے پاس ہے ۔ معاملے سے متعلقہ ایک اعلی حکومتی افسر نے بتایا کہ ایس ایم نامی وہ شخص ہے جس نے مبینہ طور پر حسین نواز شریف کی وہ تصویر لیک کی تھی جس سے تنازع پیدا ہو اور شریف خاندان کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا ۔

افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ صرف ایک ہی نام ہے ۔ انہوں نے اس شخص کے متعلقہ محکمے اور اس کے فرائض کی نوعیت کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا یہ بھی واضح نہیں اس شخص کے خلاف کوئی انظباطی کاروائی کی گئی ہے یا نہیں ۔ جب اس شخص کے متعلق مزید تفصیلات کے حوالے سے استفسار کیا گیا تو سنیئر افسر نے بتایا کہ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے اعلی ترین عدالت کو نام بتانے سے کوئی گریز نہیں کیاِ ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ یہ خفیہ ’کوراپ‘نام تو نہیں تاہم یہ کوئی اعلی افسر نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

آفسر نے کہا سپریم کورٹ کو صرف اس شخص کا نا م بتایا گیا ہے جس نے سابق وزیراعظم کے بڑے بیٹے کی توہین آمیز تصویر جاری کی تھی جو جے آئی ٹی میں تحقیقاتی ٹیم کا سامنا کرنے آئے تھے اور اس کے ادارے کا نام خفیہ رکھا گیا ہے جس سے یہ احساس مزید گہرا ہو گیا ہے ۔ حسین نواز کے وکیل حارث نے فاضل عدالت سے تصویر لیک کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنانے کی اسدعا کی تھی جو عدالت نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی تھی کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لئے کمیشن کا قیام سپریم کورٹ کے دائر کردہ اختیار میں نہیں ہے وفاق چاہے تو ایسا کر سکتا ہے ۔

متعلقہ حکومتی اہلکاروں سے ملاقاتوں اور آف دی ریکارڈ تبدلہ خیل سے معلوم ہوا ہے کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے سپریم کورٹ کی ہدایات پر مسٹر ایس ایم کا نام سربمہر لفافے میں اٹارنی جنرل اشتراوصاف علی کو فراہم کیا ۔ اشتراوصاف نے گزشتہ ہفتے وزیراعظم کو اس نام کے بارے میں بتایا اور ایک اعلی افسر نے نام ظاہر کرنے کی درخواست پر بتایا کہ سربمہر لفافے میں جس پر انتہائی خفیہ ادارے کی مہر لگی تھی صرف نام دیا گیا ہے ۔

اکیڈمی میں کرنے والے حکام نے بتایا کہ مسٹر ایس ایم فیڈرل جیوڈیشل اکیڈمی کا ملازم نہیں ، جہاں80ملازم کام کرتے ہیں ، مسٹر ایس ایم جے آئی ٹی ارکان کے ساتھ ساتھ اس جے آئی ٹی انچارج کی معاونت کر رہا تھا جو اکیڈمی کے سی سی ٹی وی آپشنز کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن حکام نے اس نمائندے کو بتایا کہ یہ شخص وزارت داخلہ اس کے ماتحت اداروں ، وزارت قانون و انصاف اور اس سے ملحقہ خود مختار اداروں ، سٹیٹ بینک آف پاکستان اور قومی احتساب بیورہ میں سے کسی کا ملازم نہیں۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے پاس مذ کور اہتمام اداروں کے ملازمین کی تفصیلات موجود ہیں ۔ شریف خاندان کے ایک رکن نے نمائندے کے رابطے پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے اقدامات اور غفلتیں صرف توہین آمیز ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ہیں ۔ تاہم بعض حکومتی اہلکاروں کا ماننا ہے کہ اس شخص کا تعلق دو ایجنسیوں سے ہے ، جس کے ارکان اس عمل کا حصہ تھے ۔

حسین نواز کے ایک قریبی نے بتایا کہ ممکنہ طور یہ ایجنسی کا سول ملازم ہو سکتا ہے تاہم اس میں کچھ تو گڑبڑ ہے ، تاہم وزارت دفاع نے اس موقف کی تصدیق یا تردید نہیں کی ۔ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء سے جب یہ سوالات کئے گئے کہ اس شخص کو ان حساس معلومات تک رسائی کیسے ملی ؟یہ شخص کس طرح ایسی احساس جگہ موبائل فون لے گیا جہاں تحقیقات ہو رہی تھی ؟ اگر وہاں فون لے جانے کی اجازت نہیں تھی تو کیا یہ سکیورٹی کی پامالی نہیں تھی ؟ کیا آپ تصدیق کر سکتے ہیں کہ غیر سرکاری طور پر مزید کوئی ریکارڈنگ یا تصویرکشی نہیں کی گئی ؟ تو انہوں نے صرف یہ جواب دیا فاضل سپریم کورٹ کے اس معاملے میں احکامات پر مکمل عملدآمد کر دیا گیا ہے ۔

جب اس نمائندے نے ڈائریکٹر فیڈرل جو ڈیشل اکیڈمی فخر حیات سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی ارکان کو صرف جگہ دی تاہم وہ یہ سوالات ٹال گئے کہ اس شخص کا تعلق اکیڈمی سے ہے ؟ یا یہ کہ کیا جے آئی ٹی نے اکیڈمی کے کچھ لوگوں کی خدمات بھی حاصل کی تھیں ؟ سیکرٹری وزارت دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) ضمیرالحسن اور رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب عارف نے گزشتہ چا روز کے دوران بار بار یادہانیوں لے باوجود اس نمائندے کے بھیجے گئے سوالوں کے جوابات نہیں دئے ۔ نوٹ: حسین کی تصویر جاری کرنے والے شخص کا پورا نام اس کی شناخت کے تحفظ کے لئے نہیں دیا گیا

متعلقہ عنوان :