آرٹیکل 35اے ختم کیا گیا تو کشمیرکی مسلم اکثریتی شناخت باقی نہیں رہے گی، کشمیری مسلمانوں نے مذہبی رواداری کو ہمیشہ قائم و دائم رکھا ہے،مشترکہ مزاحمتی قیادت کا عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے بیانات پر سخت رد عمل

جمعرات 17 اگست 2017 12:27

سرینگر ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 اگست2017ء) مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک پر مشتمل مشترکہ مزاحمتی قیادت نے سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ اور بھارت نواز جماعت نیشنل کانفرنس کے قائم مقام صدر عمر عبداللہ کے اس بیان پر سخت ردعمل ظاہر کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حریت رہنمائوں کو آرٹیکل 35-اے کے معاملے پر مداخلت نہیں کرنی چاہیے ۔

کشمیر میڈیاسروس کے مطابق مشترکہ مزاحمتی قیادت نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں کہا کہ بھارتی حکومت کی طرف سے آرٹیکل 35A میں کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ یا اسے ختم کئے جانے کا اقدام کشمیریوں کے لیے انتہائی فکر مندی کا باعث ہے کیونکہ اس سے جموںوکشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو سخت نقصان پہنچنے کا شدید احتمال ہے جبکہ گزشتہ70سال پر محیط ریاستی عوام کی جدوجہدآزادی اور اس سلسلے میں دی قربانیاں بھی رائیگاں چلی جائیں گی۔

(جاری ہے)

مشترکہ مزاحمتی قیادت نے کہا کہ نیشنل کانفرنس حصول اقتدار کی خاطر گرگٹ کی طرح اپنے رنگ بدلتی رہی ہے اور اسکے رہنما کبھی اٹانومی کا راگ الاپتے ہیں اور کبھی 1953سے قبل کی پوزیشن کے لئے آسمان سر پہ اٹھاتے ہیں۔ مشترکہ قیادت نے کہاکہ جموں کشمیر کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اقتدار کے ایوان پر قبضہ جمانے کے لئے یہ لوگ کسی بھی حد کو پار کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔

مزاحمتی قیادت نے کہا کہ شیخ محمد عبداللہ نے 1938میں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کرکے جموں کشمیر میں تاریخ کے دھارے کا رٴْخ ہی بدل دیا اور اس فیصلے کے نتیجے میں کشمیری گزشتہ85سال سے سخت حالات کا سامناکر رہے ہیں ۔ مزاحمتی قیادت نے 1948میںمرحوم شیخ محمد عبداللہ کی اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل میں ان کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ادارے میں منظور کی گئی کئی قرادادوں کے نتیجے میں جب اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے بین الاقومی برادری سے وعدہ کرتے ہوئے کشمیر میں رائے شماری کرائے جانے کا وعدہ کیا توشیخ عبداللہ اس مطالبے کی مخالفت کی تھی۔

مزاحمتی قیادت نے مرحوم شیخ عبداللہ کی کی کتاب '' آتش چنار''کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گاندھی جی جموں کشمیر میں فوج بھیجنے پر راضی نہ تھے لیکن شیخ محمد عبداللہ نے ہی انہیں راضی کرلیا۔ مزاحمتی قیادت نے کہا کہ جب اقوام متحدہ نے سر اٴْون ڈکسن کو متنازعہ ریاست جموں کشمیر میں رائے شماری کے لیے ایک نمائندہ کی حیثیت سے جائزہ لینے کے لئے تعینات کیا تویہ شیخ محمدعبداللہ ہی تھے جنھوں نے 27اکتوبر1950 کو بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کو آئینی جواز بخشنے کے لئے آئین ساز اسمبلی کو تشکیل دئے جانے کا فیصلہ لیا۔

مزاحمتی قیادت نے عمر عبداللہ کو یاد دلایا کہ تحریک آزادی کشمیر کو اس وقت ایک اورشدید دھچکہ پہنچا جب شیخ محمد عبداللہ نے قوم کو سرنگوں کیااورعوامی قربانیوں اور لوگوں کے جذبات کا خون کرکے 1975 میں اندرا عبداللہ ایکارڑ کے تحت رائے شماری کے مطالبے کو ترک کیا اور اپنے اقتدار کے لئے راہ ہموار کی۔ دریں اثنا مزاحمتی قائدین نے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے اس بیان کہ ’’مذہبی رواداری صرف جموں میں ہی موجود ہے‘‘ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے لوگوں نے ہمیشہ مذہبی رواداری کو قائم رکھا ہے اور آئندہ بھی قائم رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ موصوفہ کو صرف اپنی اقتدار کی فکر ہے اور انہیں جموں کشمیر میں ہونے والا ظلم وجبر دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ مزاحمتی رہنمائوں نے محبوبہ مفتی کو یاد دلاتے ہوئے واضح کیا کہ جب پورا برصغیر تقسیم ہند کے گہرے زخموں سے چور چور تھا اور جموں میں بلوائیوں اور ہندوانتہا پسندوں نے 5لاکھ مسلمانوں کو ذبح کیا لیکن وادی کشمیر میں مسلمانوں نے پنڈتوں کے ساتھ بھائی چارے کا سلسلہ قائم و دائم رکھا اور اپنے صبر کا پیمانہ چھلکنے نہیں دیا۔

قیادت نے کہا کہ اس وقت بھی جموں میں تمام اقلیتوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص ستایا اور خوف ہراس کا شکار بنایا جاتا ہے اور انہیں 1947کا قتل عام دہرانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ہندو انتہا پسند مسلمانوں کو دبانے کے لیے ہتھیار بند ریلیاں نکال کر انہیں خوفزہ کررہے ہیں، جبکہ کشمیر میں اس وقت بھی ہماری صدیوں پرانی روایات برقرار ہیں۔

متعلقہ عنوان :