نظر ثانی درخواست ، شریف خاندان کے وکلا ء کوسخت موقف اپنانے کی ضرورت ہے

تین ججز کے بنچ سے علیحدگی ، لارجر بنچ یا کورٹ بنانے کی درخواست کی جائے گی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعرات 17 اگست 2017 12:07

نظر ثانی درخواست ، شریف خاندان کے وکلا ء کوسخت موقف اپنانے کی ضرورت ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 17 اگست 2017ء) :سابق وزیراعظم اور ان کے خاندان کی لیگل ٹیم نے پانچ رکنی بنچ کے دائرہ اختیارسماعت پر اعتراضات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ شریف فیملی کے قانونی ذرائع کے مطابق وہ پانچوں جج صاحبان جنہوں نے نواز شریف کی نا اہلی کا فیصلہ صادر کیا وہ اب خود نظر ثانی کا اختیار نہیں رکھتے ۔ تین رکنی عملدرآمدبنچ جو جسٹس اعجازا فضل جسٹس شیخ عظمت سعیداور جسٹس اعجاز ا لحسن پر مشتمل تھا اور جس بنچ نے جے آئی ٹی ذریعے تفشیش کروائی یہ بنچ حتمی فیصلہ کرنے میں صادر نہیں ہو سکتا تھا ۔

اس طرح سے پانچوں رکنی بنچ کے باقی دو اراکین جسٹس آصف سعید کھو سہ اور جسٹس گلزار احمد کا فیصلہ بھی اس حوالے سے نا قص ہے کہ ان دو جج صاحبان نے جے آئی ٹی رپورٹ ملاحظہ کیے بغیر حتمی فیصلہ پر دستخط کیئے مزید برآں جسٹس آصف سعید کھو سہ اور جسٹس گلزار احمداٹھایس جولائی کے حتمی فیصلے کا حصہ نہیں بن سکتے تھے کیونکہ یہ دو جج صاحبان بیس اپریل کے فیصلے میں ہی اپنی حتمی رائے دے چکے تھے لیکن ان دو جج صاحبان کا باقی تین ججوں کے ساتھ اٹھایئس جولائی کو پھر حتمی فیصلہ پر دستخط کرنا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے ۔

(جاری ہے)

ان جج صاحبان نے درحقیقت دو حتمی فیصلے جاری کئے جس کی عدالتی تاریخ میں کوئی نظیر موجود نہیں ہے ۔ شریف خاندان کے لیگل ٹیم کے سربراہ خواجہ حارث کے مطابق پانچوں جج صاحبان نے اپنے دائرہ اختیار سماعت نہ ہونے کے باوجود انکے موکل کے خلاف اٹھائیس جولائی کو جو فیصلہ جاری کیا وہ آئین وقانون کی متعدد شقوں سے متصادم ہے ۔ ذرائع کے مطابق جو اعتراضات پہلے نہیں اٹھائے گئے وہ اب جج صاحبان پر اٹھائیں گے خاص طور پر تین جج صاحبان جنہوں نے عملدار بنچ میں شامل ہو کر جے آئی ٹی کی تفتیشی عمل کی زیر نگرانی کی ان ججوں کو نظر ثانی کی سماعت سے اطراز کرنے کی درخواست کی جائے ۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ آصف جو کہ فوجداری قانون کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔ ان کا کہنا کہ ایسا جج جو تفتیشی عمل کا حصہ ہو وہ اسی تفتیش کے نتیجے میں فیصلے کے عمل میں شریک نہیں ہو سکتا ۔ نواز شریف کے مقدمے میں تین ججوں نے خود ہی تفتیش کروائی ۔ تفتیش کے نگرانی کے لئے باقاعدہ عملدار آمد کا حصے بنے اور پھر خود ہی اس تفتیش کی بنیاد پر فیصلہ سنا دیا جو کہ آئین و قانون کی روح کے منافی عمل ہے ۔

ان جج صاحبان کو عملدرآمدبنچ بعد فیصلہ کرنے والے بنچ سے علحیدہ ہو جانا چاہیے تھا ۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف کے وکلاء اب نظر ثانی کے مرحلہ میں سخت موقف اپنانے کی ہدایات لے چکے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف کے قانونی مشیروں کو جج صاحبان پر آئین وقانون و عدالتی روایات کے مطابق اعتراضات اٹھانے کی ہدایات کی گئی ہیں کیونکہ بعض معتبر حلقوں کی جانب سے شریف خاندان کی لیگل ٹیم پر پانامہ کیس میں جارحانہ رویہ نہ اپنانے کو بھی تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا ۔

ذرائع کے مطابق بعض کلیدی لیگی رہنما ؤں کی رائے میں شریف خاندان عدالتی نظام ججوں کے احترام میں عدالتوں میں پیش ہوئے لیکن ان کے اس احترام کو انکی کمز وری سے تعبیر کیا گیا ۔ اس لئے اب عدالتی ادب واحترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ، آئین قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے جج صاحبان پر وہ اعتراضات بھی اٹھائیں جائیں گے جو ابتدائی سماعت میں نہیں گئے اور فیصلے میں سنگین خامیوں ، کمزوریوں اور سقم کو بنیاد بنا کر نظر ثانی درخواست کی پیروی کی جائے گی ۔

اور جج صاحبان کا لکھا آئین و قانون سے متصادم نظر آئے گا وہاں آرٹیکل 10کی بنیاد بنا کر فیئرٹرائل کا بنیادی حق مانگا جائیگا۔ وکیل خواجہ آصف کے مطابق اگرچہ نظر ثانی درخو استیں دائرکر دی گئی لیکن اپنے موقف کے حق میں مزید مواد اکٹھا کیا جا رہا ہے جو دوران سماعت بھی عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔ عدالتی ذرائع کے مطابق نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت تاخیر کا بھی شکار ہو سکتی ہے۔

متعلقہ عنوان :