ملک میں ٹیکنو کریٹس حکومت کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں،کسی کے ذہن میں یہ بات ہے تو وہ اسے نکال دے ‘

خواجہ سعد رفیق نواز شریف اب اپنے لئے کسی عہدے کے طلبگار نہیں بلکہ وہ ملک کی سمت کو سیدھا کرنا چاہتے ہیں ،تبدیلی ووٹ کے ذریعے آنی چاہیے فیصلے کوئی اور کریگا تواسے تسلیم نہیں کرینگے ،پاکستان کسی انتشار اور افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتاعالمی طاقتوں کی گریٹ گیم کو کامیاب نہیں ہونے دینا آج اگر ایک سیاستدان مائنس ہوا تو اس پر خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کل اگلے کی باری بھی آسکتی ہے ‘ وزیر ریلویز کا تقریب سے خطاب

بدھ 16 اگست 2017 18:08

ملک میں ٹیکنو کریٹس حکومت کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں،کسی کے ذہن میں ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اگست2017ء) وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ملک میں ٹیکنو کریٹس حکومت کی قطعاً کوئی گنجائش نہیںاور اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہے تو وہ اسے نکال دے ،نواز شریف اب اپنے لئے کسی عہدے کے طلبگار نہیں بلکہ وہ ملک کی سمت کو سیدھا کرنا چاہتے ہیں ،تبدیلی ووٹ کے ذریعے آنی چاہیے ،اب فیصلے کوئی اور نہیں کرے گا اگر ایسا ہو اتو اسے تسلیم نہیں کریں گے ،(ن) لیگ کی ریلی کا کوئی ٹارگٹ نہیں تھاہم نے کسی سے لڑنا جھگڑنا ہے اور نہ محاذ آرائی کرنی ہے کیونکہ پاکستان کسی انتشار اور افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا،ہم نے پاکستان کو مصر ، شام ، یمن ، افغانستان نہیں بننے دینا ، عالمی طاقتوں کی گریٹ گیم کو کامیاب نہیں ہونے دینا ، آج اگر ایک سیاستدان مائنس ہوا تو اس پر خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کل اگلے کی باری بھی آسکتی ہے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوںنے ریلوے اسٹیشن پر یوم آزادی کی مناسبت سے چلائی گئی آزادی ٹرین کے لاہور آمد کے حوالے سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر ریلوے کے اعلیٰ افسران بھی موجود تھے ۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آزادی ٹرین کی تعمیر اور تشکیل کرنے والوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ یہ ہماری تیسری کاوش ہے جس کے تحت آزادی ٹرین ملک کے طول و عرض میں سفر کر تی ہے اور لاکھوں پاکستانی اس کو وزٹ کرتے ہیں ۔

یہ ٹرین شہر شہر نگر نگر جاتی ہے اور پاکستان سے محبت اور پاکستانیت کا درس پھیلاتی ہے ۔ اس ٹرین کا بیس روزہ سفر ہے اور جہاں جہاں ریلوے کا ٹریک ہے یہ وہاں تک جائے گی ۔ اس ٹرین میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم ، کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی گیلری بھی ہے جبکہ اس کے علاوہ چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان کے فلوٹس بھی ٹرین کا حصہ ہیں اور یہ پاکستان سے محبت ،چاہت اور وفاداری ہے اور یہ سفر جار ی رہیگا بھلے یہ سفر آزادی ٹرین ،کسی سیاسی جدوجہد یا جمہوریت کی بالا دستی کی شکل میں جاری رہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ریلوے کے محنت کشوں، کارکنوں ، مینجمنٹ ،ہر سطح کے اہلکاروں نے فرض شناسی سے کام کیا ہے اور چار برسوں میں اپنی محنت سے ریلوے کا ٹرین آئوٹ کیا ۔ 2013ء میں یہی ریلوے 18ارب روپے کماتا تھالیکن اب ہم نے 40ارب کا ہدف عبور کر لیا ہے اگلے برس اس میں مزید 10ارب کا اضافہ ہوگا اور 30جون 2018ء تک ریلوے 50سے 53ارب روپے آمدن حاصل کرے گا ۔

انہوںنے کہا کہ ریلوے پر غیر ملکی قرضے کا ایک پیسہ نہیں لگا بلکہ ہم جو خود کماتے ہیں یا وفاقی حکومت سے مختلف مدوں میں ملتے ہیں ان سے کام چلایا ہے ۔ دو کروڑ مسافروںکا اضافہ ہوا ہے ،مال گاڑی جو ختم ہو چکی چکی تھی اس کی تعداد اور استعداد کار میں اضافہ کیا گیا ہے اور یہ شعبہ ہماری معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی چھ سے سات ماہ باقی ہیں اور انشا اللہ ان مہینوں میں دو سے ڈھائی سال کا کام کر کے دکھائیں گے اور بہت سے نا مکمل منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ تبدیلی ووٹ کے ذریعے آنی چاہیے اور لوگوں کے فیصلے کو تسلیم کیا جانا چاہیے ، فیصلے کوئی اور نہیں کرے گا اور اگر ایسا ہو گا تو تسلیم نہیں کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کسی کو ٹارگٹ کیا او رنہ کوئی ٹارگٹ ہے ، ہم نے لڑنا ہے اور نہ محاذ آرائی کرنی ہے ،ہم نے انتشار اور نہ افرا تفری پھیلانی ہے ، یہ ملک افرا تفری اور انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

ہم ابھی تک جہالت ، غربت کو شکست نہیں دے سکے ، دہشتگردی کے بیج اکھاڑ نہیں سکے ابھی ہم نے بہت آگے جانا ہے ، لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان ہیں جنہیں روزگار فراہم کرنا ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ ملک ٹھیک ٹریک پر آ گیا تھا بلکہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا خزانہ بھی بھر رہا تھا ، سی پیک ایسا منصوبہ ہے جس میں عجلت نہیں سمجھداری دکھانی ہو گی ، چھ ‘سات ماہ رہ گئے ہیں اورغلطیوں کا احتمال تھا لیکن ہم غلطی نہیں کرنا چاہتے ، حکومتوں کو اپنی مدت میں تمام منصوبے مکمل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ بنیاد بھی رکھ دینی چاہیے اگر ہم عجلت میں کام کرتے تو ٹیکنیکل بلنڈر ہو جاتا ۔

سی پیک کے تحت کراچی سے پشاور منسلک ہوگا اور جو ٹرین اب کراچی میں 18گھنٹے میں پہنچتی ہے وہ 11گھنٹے میں پہنچے گی لیکن اسے پانچ سال لگیں گے اور اس کے لئے پراسس شروع کر دیا ہے ۔ فریم ورک معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں ،ہم طویل المدتی قرضے کے لئے بات کر رہے ہیں اور پاکستان کے بہترین مفاد میں آسان شرائط پر قرض لیں گے ۔یورپ اور چین میں سٹیٹ آف دی آرٹ ریلوے ہے جبکہ یہاں اسے کباڑخانے میں پھینک دیا گیا ، اس میں لوٹ کھسوٹ کی گئی ،سیاسی اور فوجی ادوار میں وزراء نے اس گنگا میں ہاتھ دھوئے ، ملک کے قیمتی اثاثے کو لوٹنے کی ایک درد ناک کہانی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بہتری کا سفر جاری رہے گا ، نواز شریف سرکار چلا رہے تھے لیکن ہمارے مہربانوںنے مہربانی کی اب سیاست چلانے کی ذمہ داری بھی ساتھ ساتھ نبھائیں گے ، نواز شریف کے ساتھی ،کارکن حکومت چلائیں گے اور سیاست نواز شریف کے ہاتھ میں رہے گی ۔ انہوں نے کہا کہ جی ٹی روڈ سفر میں سب کے اندازے غلط ثابت ہوئے بلکہ ہمارے اپنے انداز بھی غلط نکلے ۔

عام ، غریب ،مڈل کلاس ،لوئر مڈل کلاس طبقے کو سیاست کی زیادہ سمجھ ہے ۔ جو شخص دس کنال کے گھر میں رہتا ہے اور جو دو مرلے کی کٹیا میں رہتا ہے دونوں کاووٹ برابر ہے اور اسے ماننا پڑے گا ، ون مین ون ووٹ کو ماننا پڑے گا،یہاں اشرافیہ کی نہیں چلے گی بلکہ عام آدمی کا فیصلہ بھی ماننا پڑے گا ۔ ہم نے پاکستان کو مصر ، شام ، یمن ، افغانستان نہیں بننے دینا ، عالمی طاقتوں کی گریٹ گیم کو کامیاب نہیں ہونے دینا ۔

جب سیاستدان ایک دوسرے کا منہ کالا کریںگے ایک دوسرے کو عدالتوںمیں گھسیٹیں گے تو بات دور تک جائے گی ۔اگر آج ایک سیاستدان مائنس ہوا تو اس پر خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کل اگلے کی باری بھی آئے گی ۔ آج کل ایک کھلاڑی سیاست میں ہے لیکن ہم بتانا چاہتے ہیں کہ سیاستدان کبھی بھی عدالت فیصلے سے نا اہل نہیں ہوتے بشرطیکہ سیاستدان زرداری صاحب والا راستہ استعمال نہ کرے ۔

پاکستان کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے ، اگر ملک کی حفاظت کرنی ہے تو ووٹ کی حفاظت کرنی پڑے گی اور سب کو ووٹ کے فیصلے کو ماننا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنو کریٹس حکومت کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں اور اگر کسی کے ذہن میں ایسی کوئی بات ہے تو اسے نکال دے ، یہاں مارشل لاز پٹ چکے ہیں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایگزیکٹو آڈر ، عدالتی احکامات سے سیاستدان کو سیاست سے بیدخل کیا جا سکتا ہے تو وہ غلطی پر ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آنے والے دنوںمیں کسی اور کے ساتھ ایسا نہ ہو ۔

نواز شریف اپنے لئے کچھ نہیں مانگ رہے بلکہ ان کا مقصد ملک کی سمت کو سیدھا کرنا ہے ۔انہوں نے کہا کہ 10اپریل 1986ء کو محترمہ بینظیر بھٹو کا استقبال دیکھا تھا اس کے بعد نواز شریف کے اسلام آباد سے لاہور سفر کے دوران ایسا منظر دیکھا ۔

متعلقہ عنوان :