ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کا ساتھ نبھانا ہوگا ،ْ صدر مملکت ممون حسین

کشیدگی کے ماحول میں جوش پر ہوش غالب نہ آیا تو اقتصادی احیاکا خواب پورا نہ ہو سکے گا ،ْتمام ذمے داران رنجشوں پر قابو پاکرقومی مفاد میں آئین پاکستان پر متحد ہوجائیں پاک چین تعلق خطے میں امن و استحکام کی ضمانت ہے ،ْچیلنجز پر قابو پاکر ہی اعلیٰ مقام حاصل کیا جاسکتا ہے ،ْنوجوان دانشمندی کا مظاہرہ کرکے قومی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنیں قوم کا مزاج بنیادی طور پر جمہوری اور پارلیمانی ہے ،ْنوجوانوں کی بے چینی پر توجہ دینا وقت کی ضرورت ہے ،ْ پاکستان کے 70ویں جشن آزادی کے موقع پر کنونشن سینٹر میں پرچم کشائی کی مرکزی تقریب سے خطاب

پیر 14 اگست 2017 18:08

ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کا ساتھ نبھانا ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 اگست2017ء) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کا ساتھ نبھانا ہوگا ،ْ کشیدگی کے ماحول میں جوش پر ہوش غالب نہ آیا تو اقتصادی احیاکا خواب پورا نہ ہو سکے گا ،ْتمام ذمے داران رنجشوں پر قابو پاکرقومی مفاد میں آئین پاکستان پر متحد ہوجائیں ،ْپاک چین تعلق خطے میں امن و استحکام کی ضمانت ہے ،ْچیلنجز پر قابو پاکر ہی اعلیٰ مقام حاصل کیا جاسکتا ہے ،ْنوجوان دانش مندی کا مظاہرہ کرکے قومی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنیں ،ْ قوم کا مزاج بنیادی طور پر جمہوری اور پارلیمانی ہے ،ْنوجوانوں کی بے چینی پر توجہ دینا وقت کی ضرورت ہے ۔

70/ویں یوم آزادی کے موقع پر پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہاکہ ہم سب نے مل کر اپنا سبز ہلالی پرچم فضا میں بلند کیا ہے ،ْ وطنِ عزیز کی آزاد فضائوںمیں لہراتا ہوا یہ پرچم تحریکِ آزادی کی ولولہ انگیز داستاں بھی بیان کرتا ہے اور گزشتہ سات دہائیوں پر مشتمل تحریکِ استحکام ِپاکستان اور تعمیر پاکستان کے کٹھن مراحل کی کہانی بھی سناتاہے اس پرچم پر جگمگاتے ہوئے چاند ستارے کی روشنی اہلِ وطن کی خوشیوں کی مظہر اور کاروانِ ترقی وکمال کی رہبر ہے۔

(جاری ہے)

میری دعا ہے کہ یہ پرچم ہمیشہ سر بلند رہے ،ْعزم و ہمت کا یہ قافلہٴ سخت جاں اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہے اور سر زمین پاک پر بسنے والے ہر ذی روح کی خوشیوںاور راحتوں کو دوام ملے، آمین۔انہوںنے کہاکہ آج کا دن اس اعتبارسے بھی یادگار ہے کہ ہماری خوشیوں کو دوبالا کرنے کیلئے ہمارے عظیم دوست اورپڑوسی چین کا اعلیٰ سطح کاوفدان تقریبات میں شرکت کر رہا ہے۔

میںاپنی، حکومت پاکستان اور پاکستانی قوم کی طرف سے وفد کے سربراہ اور عوامی جمہوریہ چین کے نائب وزیرِ اعظم وونگ یانگ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ صدر مملکت نے کہاکہ تقریب میں ان کی شرکت اس حقیقت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ دونوں ممالک تمام عالمی اور علاقائی امور پر یکساں نکتہٴ نظر رکھتے ہیں ،ْہم سمجھتے ہیں کہ پاک چین تعاون نہ صرف باہمی ترقی اور خوشحالی کیلئے اہم ہے بلکہ خطے میں امن اور توازن کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔

صدر مملکت نے کہاکہ آج خوشی اور جوش و جذبے کے وفور میں یہ پرچم سر بلند کرتے، کاروانِ عزم و ہمت کو ہمیشہ رواں دواں رکھنے کا عزم صمیم دہراتے اور تعمیرپاکستان کے عہد کی تجدید کرتے ہوئے مسّرت کے بے پایاں جذبات کے ساتھ ساتھ ہمارے دل و دماغ میں بعض خدشات بھی سر اٹھاتے محسوس ہوتے ہیں۔بعض بزرگ سوال کرتے ہیں کہ کیا ہماری محنت اور جدوجہد رائیگاں گئی جبکہ ہمارے بچے اپنے مستقبل کے بارے میں پریشانی محسوس کرتے ہیں ،ْگردوپیش کی صورتِ حال اور گردشِ ایام کی شوریدہ سری نے ان سوالات میں شدت اور روّیوں میں حد ت پیدا کر دی ہے۔

یومِ آزادی جیسے ملی تہوار اس طرح کی صورت حال میں غور و فکر کا موقع ہی فراہم نہیں کرتے بلکہ ان کے حل کی راہیں بھی سجھاتے ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ اس عہد کے سلگتے ہوئے تمام سوالوں کا جواب ہمارے آفاقی نظریات ، قائدینِ تحریکِ آزادی کے افکار اور ہماری شاندار تاریخ فراہم کر سکتی ہے جس سے روشنی پا کر اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بلکہ بہترین بنا یا جا سکتا ہے۔

انہوںنے کہاکہ میں جب ان سوالوںپر غور کرتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ ان خدشات کا سبب فکر ی مغالطے اورتاریخ کا ناہموار سفرہے۔ قوموں کی زندگی میں اس طرح کے حالات کا پیدا ہو جانا حیران کن نہیں کیونکہ دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جسے اس طرح کی آزمائشوں کا سامنانہ کرناپڑاہو۔وہ قومیںجومسائل کی شدت سے گھبرا کر مایوسی کے اندھیروں میںپناہ لیتی ہیں، سنہرا مستقبل ان سے دور ہو جاتا ہے اور جو قومیں آزمائش کی بھٹی میں تپ کر کندن بن جاتی ہیں ،ْ زمانہ ان سے روشنی پا کر اپنی راہ کا تعیّن کرتا ہے ۔

انہوںنے کہاکہ آج سے ستّر برس قبل آزادی حاصل کرتے وقت ہمارے بزرگوں نے عزم کیا تھا کہ اپنی جہد مسلسل سے اقوامِ عالم میں نمایاں مقام حاصل کرنے والی یہ قوم اپنے فکروعمل سے ایک ایسے نظام کی نقیب بنے گی جس کے نتیجے میں یہ خطہٴ ارض امن وآشتی کا گہوارہ بنے گا اور ایک ایسا فلاحی معاشرہ وجود میں آئے گا، دنیا جس کی پیروی کر کے اپنے دکھوں سے نجات حاصل کرے گی لیکن آج ہم لوگوں میں سے بیشتر، خاص طور پر نوجوانوں کے ذہن میں اپنے مستقبل کے بارے میںبہت سے اندیشے پرورش پانے لگے ہیں۔

قومی مستقبل کے بارے میں فکر انگیزی اور تشویش اچھی بات ہے لیکن مایوسی درست نہیں کیونکہ کسی بڑے عزم کے ساتھ سفر کا ارادہ باندھنے والی قومیں اپنی مشکلات پر قابو پانے میں ہمیشہ کامیاب رہتی ہیں۔معاصر دنیا میںمفادات کے ٹکرائو اور دیگرداخلی و خارجی مشکلات ان کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتیں اور نہ وہ اس طرح کے حالات میںزمینی حقائق سے چشم پوشی کرکے مسائل کے حل، اس کے نتیجے میں خوشحالی اور مقاصد کی آرزو میں بے صبری کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

اس کے برعکس وہ حالات کی اونچ نیچ سے گھبرانے کے بجائے معاملات کو ان کی فطری رفتار سے چلنے دیتی ہیں۔ اس طرح مایوسی کا اندھیرا امید کی روشنی میں بدل جاتا ہے۔ اس لیے میں اپنے بچوں کو نصیحت کروں گا کہ وہ ذہنی پراگندگی کا شکار ہو کر منزل سے دور ہونے کے بجائے دانش مندی کا مظاہرہ کر کے قومی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بن جائیں ۔ انہوںنے کہاکہ قومی مقاصد کے حصول کا دوسرا اصول یہ ہے کہ نصب العین کے تعین اور اس کے حصول کے لیے اختیار کیے گئے طریقہٴ کار سے کبھی انحراف نہ کیا جائے ۔

اس کی ابتدا ہمیں اپنی نجی زندگی سے کرنی چاہیے کیونکہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں اصول پسندی اور قانون کا احترام قوموں کو وہ طاقت ، ترقی اور توانائی عطا کرتا ہے جس کی مدد سے عظیم الشان کارنامے سر انجام دئیے جا سکتے ہیں۔ ہمیں اس آفاقی اصول کی روشنی میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لے کر فیصلہ کرنا ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ہماری کارکردگی کا معیار کیا رہا ہے۔

اس جائزے کے دوران زندگی کے مختلف شعبوں میں ہماری کامیابی کے فقید المثال نمونے بھی سامنے آئیں گے اور بعض ایسی لغزشوں کی نشاندہی بھی ہو سکے گی جن کے سبب مسائل پیدا ہوئے۔ قومیں اپنے اس حسن و قبح کے گوشوارے کو تسلیم کرنے کے بعد ہی آگے بڑھنے کی طاقت حاصل کر سکتی ہیں ۔ صدر مملکت نے کہاکہ جو قومیں خوشی اور مسّرت کے لمحات میں بھی اپنے مقاصد کو نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتیں، ان کا حال ماضی سے بہتر اور مستقبل تابناک ہو جاتا ہے ،ْ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نظامِ حکومت کے بارے میں عوام، خاص طور پر نوجوانوں کی بے چینی پر ضرور توجہ دی جائے۔

ان دنوں بعض حلقوں کی جانب سے موجودہ نظامِ حکومت کی موزونیت کے بارے میںسوالات اٹھائے گئے ہیں، قومی معاملات پر غوروفکر قابلِ تحسین ہے۔ اس سے اپنی کمزوریوں پر قابو پا کر آگے بڑھنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے ضروری ہے کہ معاملات کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے دیکھنے کے بجائے انھیں ان کے درست تناظر میں دیکھا جائے۔ قیامِ پاکستان سے اب تک ہم مختلف نظام ہائے حکومت کا تجربہ کر چکے ہیں لیکن کیا سبب ہے کہ اس کے باوجود ہ ان معاملات میں یکسوئی حاصل نہیں ہو سکی۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ہم اپنے تجربات کے نتائج آنے سے پہلے ہی بے چینی کا شکار ہو گئے ہوں یا کسی وجہ سے یہ نظام اُن اصول و ضوابط کے مطابق اپنی فطری رفتار اور مزاج کے مطابق پروان نہ چڑھ سکے ہوں ،ْاس لیے ناگزیر ہے کہ جلد بازی میں کسی نئی راہ کا مسافر بننے کے بجائے ماضی کے تجربات کی اچھی طرح چھان پھٹک کر لی جائے۔انہوںنے کہاکہ تحریکِ آزادی اور قیام پاکستان سے لے کر اب تک حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجا تی ہے کہ ہماری قوم کا مزاج بنیادی طور پر جمہوری اور پارلیمانی ہے جس پر وہ بارہا اپنے اعتماد کا اظہار کر چکی ہے ۔

یہ تاریخ کا جبر ہے کہ ہمارے مزاج سے مطابقت رکھنے والا نظام پورے طور پر برگ وبار نہ لا سکا۔ اس طرح کے معاملات میں ضروری ہوتا ہے کہ قوم گروہی اور طبقاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر اپنے درمیان وسیع تراتفاقِ رائے پیدا کر ے، اس کے بعدناگزیر ہے کہ ہم سب اپنے اجتماعی فیصلوں کا احترام کریںتاکہ ماضی کی طرح نت نئے تجربات کی بھول بھلیّوں میں بھٹکنے کے بجائے ہموار طریقے سے قومی ترقی کا سفر جاری رکھا جاسکے۔

ریاست اور نظامِ ریاست کے استحکام کا راستہ بھی اسی روّیے سے نکلے گا ،ْ جمہوری روّیوں میں بلوغت و پختگی بھی اسی سے پیدا ہو گی اور قومی ترقی واستحکام کا راستہ بھی اسی سے ہموار ہو گاکیونکہ معاشرے کے تمام طبقات اور مکتبہ ہائے فکر جب تک قومی لائحہ عمل پر مکمل طور یکسو نہ ہو جائیں، کامیابی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے۔ صدر مملکت نے کہاکہ وطنِ عزیز کو آج جن چیلنجوں کا سامنا ہے، اُن کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ غیرجذباتی طریقے سے ان مسائل کا جائزہ لے کر ملک میں اعتدال اور معقولیت کو فروغ دیا جائے۔

گزشتہ صدی کی ابتدائی دہائیوں میں جب عالمی شکست وریخت کے نتیجے میں خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو پوری مسلم دنیا کی طرح مسلم برصغیر کی فضا میں بھی جذبات کا طلاطم برپا تھا اور مسلمانوںسے ہیجانی کیفیت میں ایسے فیصلے سرزد ہو رہے تھے جن سے پہلے سے موجود مسائل مزید پیچیدہ ہونے لگے۔ ان حالات میں مصّور پاکستان علامہ محمد اقبالؒ اور بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ ہی وہ قائدین تھے جنھوں نے اپنے اعصاب مکمل طور پر بحال رکھتے ہوئے مسلمانوں کو اعتدال اور حکمت کے راستے پر چلنے کی ترغیب دی۔

آج کے حالات میں بھی قوم قیادت سے اسی قسم کے طرزِ عمل کی توقع رکھتی ہے کہ قائدین اپنے وقتی اور گروہی مقاصد سے اوپر اُٹھ کر ملک و ملت کے مستقبل کی نگہبانی کریں۔ اس پس منظر میں میں یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ کشیدگی کے ماحول میں اگر جوش پر ہوش غالب نہ آیا تو آج ہم جس اقتصادی احیا کا خواب دیکھ رہے ہیں، وہ تشنہٴ تکمیل رہ جائے گا اورقوم اس تساہل پر ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

اس لیے میں پوری قوم، خاص طور پر تمام ذمہ داران سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی رنجشوں اور گلے شکووں پر قابو پا کر خالصتاً قومی مفاد میں آئینِ پاکستان پر متحد ہوجائیں اور اس کی حفاظت اور پاسداری کو یقینی بنانے کا عزمِ نو کریں کیونکہ یہی دستاویز ہمیں اپنی ذات سے بلند کر کے قومی مقاصد کی آبیاری کا راستہ دکھائے گی اور قومی امنگوں کے ترجمان کی حیثیت سے وطنِ عزیز کی ترقی واستحکام کی ضمانت فراہم کرے گی، انشا اللہ۔

انہوںنے کہاکہ اس ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے ہم تمام اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کے دست و بازو بن جائیں ،ْاپنے دامن سے نفرتوں اور بدگمانیوں کو جھاڑ کر اخلاص و محبت کو فروغ دیں اور مایوسی کے اندھیروں کو امید کی روشنی میں بدل کر اپنی قوم کا مستقبل محفوظ بنا دیںتاکہ ہم اپنے وطن میں آزادی کی حقیقی خوشیاں منا سکیں ،ْمجھے یقین ہے کہ میری قوم، خاص طور پر میرے نوجوان بیٹے اور بیٹیاں اپنی یہ قومی ذمہ داری اس خوبی سے ادا کریں گے کہ تاریخ رہتی دنیا تک انھیںاچھے الفاظ سے یاد کرتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین۔

متعلقہ عنوان :