لاڑکانہ،اسٹیل ملز بحران ، خودکشی، صدمہ، موت کا شکار، ملک کا بڑا کارخانہ بند

ملازمین استحصال کاشکار، سی بی اے یونین نتائج حاصل کرنے میں ناکام

ہفتہ 12 اگست 2017 20:04

لاڑکانہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 اگست2017ء)اسٹیل ملز بحران ، خودکشی، صدمہ، موت کا شکار، ملک کا بڑا کارخانہ بند، ملازمین استحصال کاشکار، سی بی اے یونین نتائج حاصل کرنے میں ناکام، حکمران گہری نیند میں، اسٹیل ملز خسارے میں، محنت کشوں کے خلاف کارروائیاں، انتقام کا نشانہ۔ تفصیلات کے مطابق اسٹیل ملز آف پاکستان، جو کہ کراچی میں قائم ہے، یہ ملز ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں بنی، اور اس سے ملک خواہ بیرونی ممالک اسٹیل ملز کی اشیائے فروخت کی جاتی تھیں، لیکن حکمرانون کی عدم دلچسپی اور نااہلی کے باعث یہ اسٹیل ملز گذشتہ 08 سال سے مالی مشکلات سے دوچار ہے، اور محنت کشوں اور ملازمین کو ان کی تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئی ہیں، جس کے باعث ملازمین اور محنت کشووں کے گھروں میں چولہے تک نہیں جل رہے ہیں اور وہ فاقہ کشی کی حالات مین ہیں۔

(جاری ہے)

آن لائن کو معلوم ہوا ہے کہپاکستان کا سب سے بڑا کارخانہ پاکستاناسٹیل ملز آف پاکستان گذشتہ 08 سال سے مالی خسارے میں ہے، اور مکتلف بحرانون کی دلدل میں گھسیٹتا چلا جا رہا ہے، نتیجے میں ہزاروں محنت کش اور ملازم کے گھر اجڑ چکے ہیں، اور وہ ہر خوشی سے محروم ہیں، مسرتیں تو ان سے کوسوں دور بھاگ رہی ہیں۔ ملازمین اوور محنت کش تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے باعث معاشی بدحالی کا شکار بن کر خودکشی اور صدمہ نہ برداشت کرنے کے نتیجے میں سانس سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

حال ہی میں 09 بچوں کے باپ یعنی اسٹیل ملز کے ایک اور ملازمین محمد موسیٰ جت نے خودکشی کرلی اور زندگی گنوا دینے والوں کی تعداد60 بتائی جا رہی ہے۔ اسٹیل ملز آف پاکستان کے متاثرہ ملازمین کا کہنا ہے کہ ان کے درمیان ایک بڑے انسانی سانحہ نے جنم لے لیا ہی؛ پھر بھی حکمران غافل ہیں، اب تو اسٹیل ملز کے ملازمین کا بدترین اور بھیانک استحصال ہورہا ہے،اور کارخانہ کے 40 سے زائد پیداواری یونٹس بند ہوگئے ہیں۔

نومنتخب سی بی اے یونین بھی ملازمین کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہونے کے ساتھ ساتھ بذات خود ہی مسائلکا شکار بن گئی ہے، اسٹیل ملز آف پاکستان گذشتہ 08 سال سے مالی اور معاشی خسارے میں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کم سے کم کھربوں روپے کے خسارے میں چل رہی ہے، کیوں کہ اس کی ایک روز کی آمدنی 01 ارب40 کروڑ روپے ہے۔ اب تک یہ کم سے کم 02 کھرب روپے کا خسارہ برادشت کر رہی ہے۔

ملازمین تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے باعث ایک طرٖ فاقہ کشی میں مبتلا ہیں تو دوسری جانب وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ سی بی اے یونین ملازمین کے مسائل حل کرنے کے بجائے انتشار کا شکار ہے۔ جس کے باعث بڑے انسانی المیہ نے جنملے لیا ہے۔ حکمران پھر بھی گہری نیند میں ہیں۔ ملازمین سہولیات کے فقدان کے ساتھ ساتھ تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے نتیجے میں گھروں میں فاقہ کشی کی صورتحال ہی؛ اور انتقامی کارروائیاں اورجبری تبادلوں کے باعث ملازمین اب تو ذہنی دبائو کا شکار بن چچکے ہیں۔

پاکستان اسٹیل ملز اس وقت دو کھرب روپے سے زائد خسارے کا شکار ہے۔جبکہ ہر روز ایک ارب چالیس کروڑ روپے کا خسارہ و نقصان ہو رہا ہے۔ اس نمائندے کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بھوک اوربدحالی کا شکار بنکر لیڈی ٹیچر عالیہ نے خودکشی کرلی، سرفراز نے بھی فاقہ کشی اور مفلسی سے تنگ ہوکر اپنے آپ کو ہی مارڈالا تھا، عاقد زید اور محمد غوری صدمہ برداشت نہ کرتے ہوئے موت کی آغوش میں سوگئے۔

شیر علی، رشید بلوچ اور دیگر سمیت 60 سے زائد محنت کش، مزدور، اور ملازمین اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز کے 40 پیداواری یونٹس بند ہونے کے باعث وفاقی حکومت مسائل حل کرنے کی بجائے محنت کش اور مزدور 04-04 کی تنخواہیں بند کی گئی ہیں، قرض ادا نہ کرنے کے نتیجے میں محمد موسیٰ جت نے آتما ہتیا کرلی، دوسری جانب ملازمین نے اپنے مسائل کے حل کیلئے سی بی اے انصاف یونین کو ووٹ دے کر فتح سے دوکنار کیا، 04 ماہ گذر جانے کے بعد بھی یونین کے رہنمائوں نے نتائج حاصل کرنے میں کامیابی کا منہ نہیں دیکھا ہے، جبکہ محنت کش انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔