حالات جیسے بھی ہوئے ان کا مقابلہ کروں گا ،بھاگنے والا نہیں ہوں، نواز شریف

ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر مجھ تک اوسطاً ہر وزیراعظم کو ڈیڑھ سال کا عرصہ ملا،تین مرتبہ عوامی منیڈیٹ سے اقتدار میں آیا ایک مرتبہ سابق صدر، دوسری مرتبہ فوجی آمراور اب تیسری مرتبہ عدالت نے باہر نکالا،پانامہ میں کوئی چیز نہیں ملی تو بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے کا جواز بنا کر نا اہل قرار دیدیا،جو نادر مثالیں قائم کی جا رہی ہیں یہ ملک کیلئے خوفناک ثابت ہوں گی،فخر ہے حالیہ چار سالہ دور اقتدار میں قوم کی خدمت کی ، کرپشن کا کوئی دھبہ نہیں ہے،نیب جنرل(ر) پرویز مشرف نے مجھے نشانہ بنانے کیلئے بنایا تھا، پانامہ کیس آتے ہی سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو کمیشن قائم کرنے کیلئے خط لکھا، لیکن انہوں نے قائم نہیں کیا، میرے لئے گاڈ فادر اور سسلین مافیا جیسے انتہائی نا مناسبلفاظ استعمال کئے گئے ،قانون اور آئین کی بالادستی قائم نہ ہوئی توپاکستان کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے،سیاسی ڈائیلاگ جلد شروع ہونے چاہئیں تا کہ الیکشن تک یہ مکمل ہو، لوگ ریفرنڈم کی طرح ڈائیلاگ میں آنے والی تجاویز کی روشنی میں ووٹ دیں،ہم نے ملک کی سالمیت کے تحفظ کیلئے کبھی کمپرومائز نہیں کیا سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی سنیئر صحافیوں سے بات چیت

پیر 7 اگست 2017 18:32

حالات جیسے بھی ہوئے  ان کا مقابلہ کروں گا ،بھاگنے والا نہیں ہوں، نواز ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 اگست2017ء) سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ زوالفقار علی بھٹو سے لے کر مجھ تک اوسطاً ہر وزیراعظم کو ڈیڑھ سال کا عرصہ ملا،تین مرتبہ عوامی منیڈیٹ سے اقتدار میں آیا ایک مرتبہ سابق صدر، دوسری مرتبہ فوجی آمراور اب تیسری مرتبہ عدالت نے باہر نکالا،پانامہ میں کوئی چیز نہیں ملی تو بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے کا جواز بنا کر نا اہل قرار دیدیا،جو نادر مثالیں قائم کی جا رہی ہیں یہ ملک کیلئے خوفناک ثابت ہوں گی، حالات جیسے بھی ہوئے ان کا مقابلہ کروں گا بھاگنے والا نہیں ہوں ،فخر ہے اپنے چار سالہ حالیہ دور اقتدار میں قوم کی خدمت کی ، کرپشن کا کوئی دھبہ نہیں ہے،نیب جنرل(ر) پرویز مشرف نے مجھے نشانہ بنانے کیلئے بنایا تھا، پانامہ کیس آتے ہی سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو کمیشن قائم کرنے کیلئے خط لکھا، لیکن انہوں نے قائم نہیں کیا، میرے لئے گاڈ فادر اور سسلین مافیا جیسے انتہائی نا مناسبلفاظ استعمال کئے گئے ، قانون اور آئین کی بالادستی قائم نہ ہوئی توپاکستان کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے،سیاسی ڈائیلاگ جلد شروع ہونے چاہئیں تا کہ الیکشن تک یہ مکمل ہو، لوگ ریفرنڈم کی طرح ڈائیلاگ میں آنے والی تجاویز کی روشنی میں ووٹ دیں،ہم نے ملک کی سالمیت کے تحفظ کیلئے کبھی کمپرومائز نہیں کیا۔

(جاری ہے)

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریفنے سنیئر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 1956کا آئین بنا، ابھی اس پر عمل ہی نہیں ہوا تھا کہ 1958 میں مارشل لاء لگ گیا،1970 میں عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے پر بنگلہ دیش بن گیا، جبکہ 1973 کا آئین بنایا گیااور یہ آئین بننے کے بعد 2 فوجی ڈکٹیٹر اقتدار میں آئے،ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر مجھ تک 18 وزرائے اعظم عوامی مینڈیٹ سے اقتدار میں آئے اور اوسطاً ہر وزیراعظم کو ڈیڑھ سال کا عرصہ ملا، ایک وزیراعظم کو پھانسی چڑھادیا گیا اور دوسرے کو ملک بدر کر دیا گیا، محترمہ بے نظیر بھٹو بھی گولی کا نشانہ بنیں،حتیٰ کہ فوجی آمروں نے جو وزرائے اعظم اپنی مرضی سے بنائے، ان کو بھی مدت نہیں پوری کرنے دی گئی، میرے یہ سوالات ہیں جن کے میں جوابات مانگ رہا ہوں، سیاستدانوں، میڈیا، سول سوسائٹی سے یہ جواب مانگ رہا ہوں کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا اور کہاں جا کر رکے گا۔

انہوں نے کہا کہ عوام سے مینڈیٹ سے وہ تین مرتبہ اقتدار میں آئے اور ایک مرتبہ ایک سابق صدر دوسری مرتبہ فوجی آمر نے اور اب تیسری مرتبہ عدالت نے اقتدار سے باہر نکالا، میرا سوال یہ بھی ہے کہ پانامہ کیس میں جب پہلی مرتبہ ایک رٹ عدالت میں دائر کی گئی تو اسے ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دیا گیا تھا،اسے دوبارہ قابل سماعت قرار دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ وٹس ایپ کے حال کا سلسلہ بھی سب کے سامنے ہے اور جے آئی ٹی میں وہ لوگ شامل کئے گئے جو ہمارے کٹر مخالف تھے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندوں کو بھی شامل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بھی مجھ پر کرپشن سے متعلق کوئی چیز ثابت نہیں ہوئی حتیٰ کہ معزز جج صاحبان نے بھی بعض مواقعوں پر اپنے ریمارکس میں یہ واضح کیا تھا کہ یہ کرپشن کا کیس نہیں ہے اور نہ ہی اختیارات کا ناجائز استعمال ہوا ہے، جب پانامہ میں کوئی ایسی چیز نہیں ملی تو مجھے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے کا جواز بنا کر نا اہل قرار دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا اور نیب کی مانیٹرنگ کیلئے ایک مانیٹرنگ جج مقرر کردیا گیا ہے نیب عدالت کے فیصلے کے خلاف جن کے پاس ہم نے اپیل دائر کرنی ہے وہ خود مانیٹرنگ کریں گے تو ہمیں کسے وکیل کریں اور کس سے انصاف مانگیں۔ انہوں نے کہا کہ جو نادر مثالیں قائم کی جا رہی ہیں یہ ملک کیلئے نیک شگون نہیں ہیں اور ایسی مثالیں ملک کیلئے خوفناک ثابت ہوں گی، انہوں نے کہا کہ نا اہلی کا فیصلہ غالباٰ ہو چکا تھا صرف جواز پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی اور جواز تنخواہ نہ لینے کو بنایا گیا جس کا مجھے بہت افسوس ہے، انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے بعد جو بھی میڈیا پرجو تجزیے آئے ہیں وہ مثبت آئے ہیں اور عالمی میڈیا نے بھی اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔

جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ نا اہلی کا فیصلہ غالباٰ ہو چکا تھا تو یہ بتا دیجئے کہ یہ فیصلہ کہاں ہوا تھا، جس پر نواز شریف نے کہا کہ میں شروع میں ہی حالات حاضرہ کا آپ سے تبصرہ کر چکا ہوں، صرف اس وقت اتنا کہنا ہی کافی ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ جس طرح کے بھی حالات ہوں گے میں ان کا مقابلہ کروں گا بھاگنے والا نہیں ہوں اور اس بات پر فخر ہے کہ اپنے چار سالہ حالیہ دور اقتدار میں قوم کی خدمت کی ہے، کرپشن کا کوئی ایک بھی دھبہ نہیں ہے ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ جب اقتدار میں آئے تھے تو نیب کے قانون میں ترامیم کا سوچا تھا لیکن ہم اس طرح توجہ نہیں دے سکے انہوں نے کہا کہ نیب کا قانون جنرل(ر) پرویز مشرف نے سیاستدانوں بالخصوص مجھے نشانہ بنانے کیلئے بنایا تھا پہلے مجھے ہائی جیکر بنایا گیا جو نا انصافی تھی۔

انہوں نے کہا کہ جب پانامہ کیس سامنے آیا تو میں نے سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو کمیشن قائم کرنے کیلئے خط لکھا، لیکن انہوں نے کمیشن قائم نہیں کیا، میرے لئے گاڈ فادر اور سسلین مافیا کے الفاظ استعمال کئے گئے جو انتہائی نا مناسب تھے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ ان کے دور حکومت میں کسی ایک افسر کی ترقی کا معاملہ تھا اور معزز عدالت کے ایک جج نے ترقی کے اس کیس کو جواز بنا کر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وزیراعظم کو پتا ہونا چاہیے کہ اڈیالہ جیل میں ان کیلئے کافی جگہ ہے اور یہ اتنی دور نہیں ہے، یہ ریمارکس آنے پر جب میں نے چیک کیا تو ایسی کوئی فائل وزیراعظم کے دفتر میں زیر التواء نہیں تھی، میں نے معزز جج کے ان نا مناسب ریمارکس کا معاملہ اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے پاس اٹھایا اور انہیں ایک خط لکھا کہ ججز کے ان ریمارکس پر افسوس ہوا ہے تمام اداروں کو ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے لیکن آج تک مجھے اس خط کا کوئی جواب نہیں آیا، انہوں نے کہا کہ وہ عوام کا مینڈیٹ لے کر آئے ہیں اور دیگر تمام اداروں کا احترام کیا دوسرے اداروں کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ منتخب اداروں کا احترام کریں۔

انہوں نے کہا کہ گاڈ فادر اور سسلین مافیا کبھی جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہوتے میرے علاوہ میرے بیٹے، بیٹی اور بھائی جے آئی ٹی میں پیش ہوئے، جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کے سیاسی مخالفین یہ کہہ رہے ہیں کہ جی ٹی روڈ کے راستے لاہور جانے کا مقصد عدلیہ کو دبائو میں لانا ہے تو نواز شریف نے کہا کہ میں تو اپنے گھر جا رہا ہوں، دبائو کی باتیں کرنے والے خود یہ حربے استعمال کرچکے ہیں، انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ویسے میں نے کافی عرصہ سے جی ٹی روڈ پر سفر نہیں کیا تھا چلیں اسی بہانے میں جی ٹی روڈ کو بھی دیکھ لوں گا۔

جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ جی ٹی روڈ پر جانا ایک بڑا سیکیورٹی رسک بھی ہو سکتا ہے جس پر نواز شریف نے واضح کیا کہ ملک و قوم کی خاطر کبھی رسک بھی لینے پڑتے ہیں میں نے تو ججز کی بحالی کیلئے بھی رسک لیا تھا اور اب میں جی ٹی روڈ پر جا رہا ہوں تو یہ خود کو بحال کرانے کیلئے نہیں بلکہ پاکستان کی سمت درست کرنے کیلئے جا رہا ہوں اور میری خواہش ہے کہ پاکستان آئین و قانون کے راستے پر چلے، ملک کی سمت درست کرنا وزارت عظمیٰ سے بڑی بات ہو گی، میرا روڈ میپ کسی سے تصادم کا نہیں ہے۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت آج بھی قائم ہے میں نے این آر او کرنے سے انکار کردیا تھا جب میں جدہ سے پاکستان آ رہا تھا تو اس وقت جنرل(ر) پرویز مشرف نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ آپ مل لیں، اس میں آپ کا فائدہ ہے لیکن میں نے اصولوں اور نظریے کی خاطر انکار کر دیا، جن لوگوں نے این آر او کیا تھا اس پر مجھے دکھ ہوا تھا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جن بنیادوں پر انہیں نا اہل قرار دیا گیا ہے وہ سوچ رہے ہیں کہ آگے کیا کرنا چاہیے، میرے وکیل خواجہ حارث نے گزشتہ روز ملاقات کی ہے اور ہم سوچ رہے ہیں کہ عدالت میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی جائے۔ایف زیڈ کمپنی ، اقامہ اور تنخواہ نہ لینے کے معاملے پر سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ جب میں ملک سے باہر تھا تو برطانیہ میں مستقبل قیام کیلئے ضروری تھا کہ چھ ماہ بعد میں کسی اور ملک جائوں اور وہاں سے دوبارہ ویزہ لے کر آئوں، تو اس موقع پر میرے بیٹے نے یہ کمپنی بنائی اور جب اس نے کہا کہ آپ کو اقامہ لینا پڑے گا تا کہ آپ کو بار بار یو اے ای کا ویزہ نہ لینا پڑے، تو میں نے اسے کہا کہ میں اس کمپنی میں کلرک تو بھرتی نہیں ہو سکتا، میں پاکستان کا وزیراعظم رہا ہوںسب مجھے جانتے ہیں جس پر بیٹے نے مجھے عزت دینے کیلئے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیئرمین مقرر کر دیا اور دس ہزار درہم تنخواہ مقرر کی جو میں نے وصول نہیں کی، انہوں نے کہا کہ 2013میں حکومت میں آنے سے قبل اس کمپنی کو ختم کرنے کا عمل بھی شروع کر دیا گیا تھا اور این اے 120 سے جب میں نے الیکشن لڑا تو ریٹرننگ افسر کے پاس اپنا وہ پاسپورٹ بھی جمع کرایا تھا جس میں اقامہ کا ذکر موجود تھے اور یہی دستاویزات عدالت میں بھی پیش کی گئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ اقامہ ظاہر کرنا یا نہ ظاہر کرنا غیر قانونی نہیں ٹھہرا بلکہ عدالت نے دس ہزار درہم تنخواہ نہ لینے کی بنیاد پر نا اہل قرار دیا جس پر افسوس ہے، انہوں نے کہا کہ اسی لئے نا صرف پاکستانی بلکہ عالمی میڈیا میں بھی اس فیصلے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا، عوامی مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہیے، اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا ہو گا اگر ایسا نہ ہوا تو ملک اس طرح نہیں چل سکے گا، میں ایک نظریاتی آدمی ہوں، اور نظریے پر یقین رکھتا ہوں مجھے اقتدار کی نہیں اقدار کی پرواہ ہے، جب ایک سینئر اخبار نویس اور ٹی وی اینکر نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا نام لئے بغیر یہ کہا کہ 2016 میں آپ پر مدت ملازمت میں توسیع کیلئے جس شخص نے بہت کوششیں کیں آپ نے اسے اتنی اچھی سعودی عرب میں ملازمت کیوں دلوائی، جس پر نوازشریف نے واضح طور پر کہا کہ آپ نے ابھی کسی کی مدت ملازمت میں توسیع کا جو سوال کیا ہے میں اگر نظریاتی نہ ہوتا تو اس وقت سودے بازی کر چکا ہوتا، میں اس معاملے پر مزید بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی قائم ہو اور عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔

ایک اور سوال پر سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگر قانون اور آئین کی بالادستی قائم نہ ہوئی تو اللہ نہ کرے کہ پاکستان کسی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے، ملک میں اس وقت گرینڈ سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے اور یہ ڈائیلاگ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھی ہونا چاہیے اور اس میں سب کو شامل ہونا چاہیے، ہم آئین و قانون کا راستہ اختیار کر کے ہی ملک کو بہتری کی طرف لے جا سکتے ہیں، جب وزیراعظم سے ایک اخبار نویس نے نیویارک ٹائمز کے آج شائع ہونے والے ایک کارٹون کا ذکر کیا تو وزیراعظم نے کہا کہ اس کارٹون میں پاکستان کا جو تشخص عالمی سطح پر پیش کیا گیا ہے اس پر افسوس ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب عدالتی فیصلہ آیا تو فوری طور پر وزارت عظمیٰ کی کرسی چھوڑ دی، اسمبلی نہیں توڑی، حالانکہ نئے الیکشن کا آپشن موجود تھا، نیا وزیراعظم منتخب کرایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی ڈائیلاگ جلد شروع ہونے چاہئیں تا کہ الیکشن تک یہ مکمل ہو اور اگلے الیکشن میں اس ڈائیلاگ کی بنیاد پر الیکشن لڑا جائے اور لوگ ریفرنڈم کی طرح اس ڈائیلاگ میں آنے والی تجاویز کی روشنی میں ووٹ دیں، پھر ضروری آئینی ترامیم بھی کی جا سکتی ہیں۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ کیا کوئی ایسے جج بھی موجود ہیں جو سابق فوجی آمر جنرل(ر) پرویز مشرف کا احتساب کر سکیں، جج کہتے تھے کہ مشرف کو عدالت میں پیش کیا جائے اور وہ ہسپتال چلے گئے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ حسین نواز کی تصویر لیک ہونے سمیت دیگر جے آئی ٹی کے متنازعہ معاملات پر ہم نے عدالت میں اعتراض کئے جنہیں سنا نہیں گیا، ہم کسی کو بھاگنے کا تاثر نہیں دینا چاہتے تھے اس لئے جے آئی ٹی میں پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ میرے کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ بطور وزیراعظم جے آئی ٹی میں پیش نہ ہوں اور یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ اگر جے آئی ٹی میں پیش ہونا ہی ہے تو وزارت عظمیٰ سے استعفی دے کر پیش ہوں جس پر میں نے کہا کہ میں آخر حد تک جائوں گا اور میں کسی کے سامنے شرمسار نہیں ہونا چاہتا، اس لئے آخر وقت تک رہا اور عدالت نے جس بنیاد پر نا اہل قرار دیا اس حوالے سے عوام کی رائے سب کے سامنے ہے۔

جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا آپ آصف زرداری سے سیاسی ڈائیلاگ کریں گے تو انہوں نے کہا کہ سب کے ساتھ ڈائیلاگ کرنے کو تیار ہیں، میں حالات کی بہتری چاہتا ہوں خرابی نہیں، نوبل مشن کیلئے کام کر رہا ہوں کھیل تماشا ختم ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت آئین پر چل رہا ہے، وہاں کسی وزیراعظم کو آئینی مدت سے پہلے نہیں ہٹایا گیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، بھوٹان میں بھی وزرائے اعظم اپنی مدت پوری کرتے ہیں وہاں اب کوئی ایڈونچر نہیں ہو رہا اور نہ ہی کہیں ڈکٹیٹر شپ ہے۔

انہوں نے کہا کہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ عدالتوں نے ماضی میں ایک فوجی آمر کو نا صرف تحفظ دیا بلکہ اسے تین سال کی مدت دے کر آئین میں ترامیم کی اجازت بھی دی، اب یہ سب کچھ بدلنا چاہیے، جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ اپنے وکلاء کی کارکردگی سے مطمئن ہیں تو نواز شریف نے کہا کہ خواجہ حارث بہت قابل وکیل ہیں انہوں نے اچھی طرح مقدمہ لڑا جبکہ مخدوم علی خان نے بھی اچھی طرح مقدمہ لڑا تھا، ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ پہلا مرحلہ ڈائیلاگ ہے، سیاست دان ہمیشہ ڈائیلاگ پر یقین رکھتے ہیں اور سیاستدانوں نے ڈائیلاگ کے ذریعے معاملات کو حل کیا ہے، سیاستدانوں کے دور حکومت میں کوئی جنگ نہیں ہوئی، جنگیں ڈکٹیٹروں کے دور میں ہی ہوئی ہیں۔

ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ بجلی کے منصوبوں کو تیزی سے مکمل کیا گیا اور لوڈشیڈنگ میں نمایاں کمی ہوئی، اسٹاک ایکسچینج 19ہزار سے 54ہزار کی بلندی پر پہنچی، ترقی کی شرح 5.3 تک پہنچائی گئی، لواری ٹنل کو مکمل کیا گیا، سی پیک پر تیزی سے کام جاری ہے، بلوچستان اور کراچی میں امن قائم کیا گیا، خیبرپختونخوا میں ہم نے مینڈیٹ کا احترام کیا، سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے مکمل تعاون کیا گیا آپ قائم علی شاہ صاحب اور موجودہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سے پوچھ سکتے ہیں، سیاسی ماحول ناتجربہ کار ٹیم نے خراب کرنے کی کوشش کی، مجھے عمران خان یا تحریک انصاف کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین قانون کی بالادستی اور نا انصافی کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، نظر ثانی کی اپیل اگر منظور ہوئی تو میں دوبارہ آٹھ ماہ کیلئے وزیراعظم نہیں بنوں گا انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی میں بہت خوبیاں ہیں محنتی ہیں،وہ ترقیاتی منصوبوں کی بروقت تکمیل کیلئے بھرپور کوششیں کریں گے جبکہ پنجاب میں شہباز شریف پہلے ہی بہت محنت کر رہے ہیں ۔

ایک اور سوال پر نواز شریف نے کہا کہ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کبھی سودے بازی نہیں کی، پہلے دور حکومت میں سابق صدر غلام اسحاق خان کا ایٹمی پروگرام کی تکمیل کیلئے بھرپور تعاون جاری رہا اس وقت سابق امریکی صدر سینئر بش نے دبائو ڈالا تھا، لیکن ہم نے اس دبائو کو ملک و قوم کے مفاد میں مسترد کر دیا تھا، جبکہ 1998 میں ایٹمی دھماکے نہ کرنے پر بہت پیشکشیں ہوئیں، دبائو بھی ڈالا گیا لیکن ہم نے ملک کی سالمیت کے تحفظ کیلئے کبھی کمپرومائز نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ اپنے ہی چند لوگ یہ مشورے دیتے تھے کہ ایٹمی دھماکے نہ کریں پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگ سکتی ہیں، کئی عالمی سپر پاورز نے فون کر کے ایٹمی دھماکے کرنے سے روکنے کی کوشش کی، لیکن میں نے ملکی مفاد کو ترجیح دی اور حالیہ چار سالہ دور میں بھی ایٹمی پروگرام پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا، ملک کا دفاع مضبوط کرنے کو ترجیح دی اور نہ کبھی سوچا کہ نیوکلیئر پروگرام پر سودے بازی کرنی چاہیے، ہمیشہ پاکستان کے دفاع اور نیو کلیئر پروگرام کو تحفظ دینے کو ترجیح دی، جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان وفاقی کابینہ میں شامل کیوں نہیں کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا کہ وہ شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں شامل نہیں ہوں گے۔