پہلے ایک صدر ، پھر آرمی چیف اور اب عدلیہ نے وزیراعظم کو گرادیا، مولانا فضل الرحمان

کوئی ادارہ یہ نہ سوچے طاقت کے زور پر سب کچھ منوالیا جائیگا، وزیراعظم کے خلاف پاکستان کے تمام طاقتور دفاتر نے اپنے تجربات مکمل کر لئے ، جن سیاستدانوں کولائے اب انہی سے نالاں ہیں، اس قسم کے کھیل ختم ہونے چاہئیں، ملک کو بھونچالی کیفیت سے نکالنا ہوگا ، صورتحال کسی کے مفاد میں نہیں،عالمی سازش کے تحت پاکستان کو سیاسی طور پر عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، کسی مدرسے کو تالا لگانے ، کسی مولوی کو پکڑنے سے دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا ، جہاں دہشت گردی ہے وہاں جاکر کارروائی کرو، حکمران اور سیاستدان تنہا کرپشن نہیں کرتے اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی ان کیلئے میدان ہموار کرتی ہے ، خود ہی جال بنتی ہے اور شکار پھنسا کر اسے پکڑ لیتی ہے ، پارلیمنٹ نے نیب سے حساب کتاب لیا تو پتہ چلا کہ سب سے زیادہ وصولیاںبیورو کریسیاور فوج سے ہوئیں ، سیاستدانوں کی کم کرپشن کے باوجود پارلیمنٹ کو جمہوریت کو کمزور کرنے کیلئے بدنام کیا جاتا ہے جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کاجے یوآئی سعودی عرب کے زیر اہتمام استقبالیہ تقریب سے خطاب

جمعرات 3 اگست 2017 21:52

پہلے ایک صدر ، پھر آرمی چیف اور اب عدلیہ نے وزیراعظم کو گرادیا، مولانا ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 03 اگست2017ء) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پہلے صدر اور آرمی چیف کے ذریعے وزرائے اعظم نکالے جاتے رہے اب عدلیہ نے وزیراعظم کو گرا دیا ، وزیراعظم کے خلاف پاکستان کے تمام طاقتور دفاتر نے اپنے تجربات مکمل کر لئے ،کوئی ادارہ یہ نہ سوچے طاقت کے زور پر سب کچھ منوالیا جائیگا، آج جن سیاستدانوں سے یہ نالاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملکی سیاست کا انہیں حصہ نہیں ہونا چاہیے تو ان کو آپ ہی تو لے کر آئے تھے ، آپ نے ہی تو متعارف کرایا تھا اب اس قسم کے کھیل ختم ہونے چاہئیں، ملک کو بھونچالی کیفیت سے نکالنا ہوگا ، صورتحال کسی کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ عالمی سازش کے تحت پاکستان کو سیاسی طور پر عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، عدلیہ میں صرف کسی درخواست کا جانا مسئلہ نہیں تھا بلکہ پاکستان اور اس کی سیاست کو نشانہ بنایا گیا ہے، کسی مدرسے کو تالا لگانے ، کسی مولوی کو پکڑنے سے دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا ، جہاں دہشت گردی ہے وہاں جائو ، جہاں دہشت گردی کے مراکز یا اڈے ہیں ان کے خلاف کارروائی کرو،حکمران اور سیاستدان تنہا کرپشن نہیں کرتے اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی ان کے لئے میدان ہموار کرتی ہے ، خود ہی جال بنتی ہے اور شکار پھنسا کر اسے پکڑ لیتی ہے ، پارلیمنٹ نے نیب سے حساب کتاب لیا تو پتہ چلا کہ سب سے زیادہ وصولیاں فوج اور بیوروکریسی سے ہوئیں ، سیاستدانوں کی کم کرپشن کے باوجود پارلیمنٹ کو جمہوریت کو کمزور کرنے کیلئے بدنام کیا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

وہ جمعرات کویہاں اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام سعودی عرب کے زیر اہتمام استقبالیہ تقریب سے خطاب کررہے تھے ۔ سعودی عرب میں جے یو آئی کی تنظیم کی طرف سے یہ استقبالیہ پاکستان میں جے یو آئی کے کامیاب بین الاقوامی اجتماع کے حوالے سے دیا گیا ۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سعودی عرب دیار غیر نہیں دیار حبیب ہے ، آج پوری دنیا سمٹ چکی ہے ، نئے دور کی طرف جا رہے ہیں ، یورپ اور امریکہ میں کوئی پڑوسی ملک ایک دوسرے کو فتح یا زیر نگیں کرنے کی کوشش کرتا دکھائی نہیں دیتا ، یہ جنگ صرف اسلامی دنیا میں برپا ہے اور مسلمان ملک ایک دوسرے کو فتح کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ کہیں مالیاتی کرپشن کہیں اخلاقی کرپشن کی باتیں کی جا رہی ہیں ، سیاست میں معیار اتنا گر گیا ہے کہ اس پر بات بھی نہیں کر سکتے ، یہ پودے خود بخود نہیں اگے بلکہ ان کی عالمی سطح پر آبیاری کی گئی ہے ، پانامہ کیس میں بظاہر پانامہ پیپرز نظر آرہے ہیں ، یہ جزیرہ امریکہ کے زیر اثر ہے جہاں امریکی مخالف حکومت کو گرا کر امریکہ کی حکومت لائی گئی اور جن کو غیر مستحکم کرنا مقصود تھا سازشیں شروع ہو گئیں ، یہی مسئلے کی بنیاد ہے پاکستان اس کی سیاست پانامہ کی نظر ہو گئی ۔

عالمی سازش اس کی منصوبہ بندی کے زیر اثر آگئے ، ملکی سیاست تابع ہو کر رہ گئی ہے ، ہمیں داخلی کمزوری دیکھنی ہوگی ۔ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کا کوئی سیاستدان اور حکمران اس وقت تک کرپشن نہیں کرسکتا جب تک اسے اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کی مدد حاصل نہ ہو ، وہی سیاستدان اور حکمرانوں کیلئے میدان بناتی ہیں ، آمادہ کرتی ہیں ، ترغیب دیتی ہیں ، لالچ دیتی ہیں ، سیاستدان اکیلا کرپشن نہیں کرسکتا اور میدان بنانے والے یہ پھر اس کا احتساب بھی کرتے ہیں یعنی جال بھی خود بنتے ہیں پھر اس میں شکار بنا کر پکڑ لیتے ہیں ۔

پرویز مشرف نے نیب کا قانون بنایا اور جب اس نیب سے پارلیمنٹ نے وصولیاں کا حساب کتاب مانگا تو پتہ چلا کہ سب سے زیادہ وصولیاں دوسرے نمبر پر بیورو کریسی اور سب سے کم وصولیاں سیاستدانوں سے ہوئیں جبکہ بدنام بھی سب سے زیادہ سیاستدانوں کو کیا جاتا ہے ۔ سیاستدانوں کی کم کرپشن کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا مقصددرحقیقت کو بدنام کرنا ہے تاکہ جمہوریت مضبوط نہ ہو سکے ۔

ادارے ایک دوسرے کو کمزور کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اگر ادارے مضبوط نہیں ہوں گے وہ ملک کا سہارا نہیں بن سکیں گے ۔ پاکستان کے خلاف جو سازش ہوئی اس کے خلاف منصوبہ بندی کا ادراک کریں ، ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت میں درخواست آگئی ، یہ اتنا آسان کام نہیں تھا ، عدم استحکام کی کوششیں جاری ہیں ، امریکی کی پوری ایشیا پر نظر ہے وہ معاشی طاقت کے طور پر چین کو مدمقابل ابھرتا دیکھ رہا ہے ۔

شام یمن کے بعد سعودی عرب کو بھی خطرات درپیش ہیں ، عرب دنیا کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ علاقے میں اسرائیل کی بالادستی کو تسلیم کر لیں اور جب پاکستان نئی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کے اقتصادی ویژن کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے پاکستان چین کی معاشی پالیسی کا زینہ بن گیا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان نشانے پر آگیا ہے ۔

اسے حکومتی کیس کے طور پر نہ دیکھیں ،بظاہر جو شورشرابہ سنائی دے رہا ہے پس پردہ کچھ اور ہے ، عدم استحکام بنیادی ایجنڈا ہے تاکہ پاکستان کو خلفشار اور انتشار پیدا کرتے ہوئے اسے افغانستان اور عراق کے انجام دے دوچار کر دیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ان حالات میں پاکستان کی سیاست کو دیکھتے ہیں تو سیاسی جماعتیں ، ارکان پارلیمنٹ ایک دوسرے کو چور چور اور کرپٹ قرار دے رہے ہیں ۔

اس سیاسی کلچر کی منصوبہ بندی کہیں اور کی گئی اور اب دوچار روز سے سیاست جس اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوگئی ہے ایک دوسرے کو ننگا کرنے پر اتر آئے ہیں شرافت اجازت نہیں دیتی کہ اس پر بات بھی کریں ۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو حساسیت کا ادراک کرنا ہوگا ، سیاستدانوں ، عدلیہ ، انتظامیہ ، اسٹیبلشمنٹ کو بھی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم سب ہم وطن ہیں ، ہمیں ایک دوسرے کی طاقت بننا چاہیے اور اگر ہم سمجھتے ہیں کہ طاقت کے بل بوتے پر کسی کو اپنے فیصلے تسلیم اور قبول کروانے پر مجبور کردیں گے تو ایسا ناممکن ہے ، اعتماد بحال کر کے اپنے ساتھ چلائو ، فوج بھی ہماری ہے ، اپنے دفاع پر اعتماد کرتا ہوں ، بدقسمتی سے خطے کے حالات ایسے ہیں کہ ہم دس پندرہ سالوں تک ناخن برابر بھی کسی غلطی کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔

کوئی غلطی کردی تو مستقبل کو تباہ کر سکتے ہیں ، باہمی اعتماد موجود نہیں ہے ، سوچنا ہے کہ اسے بحال کریں اور ملک کو بحران سے نکالیں ۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج جن سیاستدانوں سے یہ نالاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملکی سیاست کا انہیں حصہ نہیں ہونا چاہیے تو ان کو آپ ہی تو لے کر آئے تھے ، آپ نے ہی تو متعارف کرایا تھا اب اس قسم کے کھیل ختم ہونے چاہیئں ، صاف ستھری اور سنجیدہ سیاست ہونا چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ اب پرویز مشرف نے نئی جنگ شروع کردی ہے اور کہہ رہے ہیں کہ اس ملک کو سیاستدانوں نے نہیں آمروں نے بچایا ہے ، سیاستدانوں نے ملک کا بیڑہ غرق کیا ۔انہوں نے کہا کہ اداروں کے درمیان تصادم کی فضاء ختم کرانے کی بجائے ایسی باتیں کیوں کی جا رہی ہیں ، قوم کو ایک کیوں نہیں ہونے دیا جاتا ، جھگڑے کیوں نہیں ختم کئے جاتے ، سب نے حلف اٹھایا ہے کہ ملک کو آئین کے تابع چلنا چاہیے ۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایک بار صدر ، ایک بار آرمی چیف اور اب عدلیہ نے وزیراعظم کو گرایا ہے ، ہر طاقتور دفتر نے وزیراعظم کے حوالے سے تجربہ کیا ہے اوروزیراعظم کے خلاف سب کے تجربے مکمل ہوگئے ہیں ۔ اس بھونچال سے نکلنا ہوگا ، ملک کو صحیح سمت گامزن کرنا ہوگا ، ترقی کے اس نئے سفر کو جاری رہنا چاہیے ، ہم ملک ، آئین ، پارلیمنٹ اور جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں اور اب ایسی فضاء بھی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آمریت جمہوریت سے بہتر ہے ۔

سعودی کی عرب کی سالمیت وخودمختاری کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سعودی عرب کی وابستگی سے پوری دنیا آگاہ ہے ، سعودی عرب تنہا نہیں ہے تاہم عالم اسلام کو باہمی تنازعات کو حل کرنے ، تعلقات میں نرمی لانے ، داخلی خلفشار سے بچتے ہوئے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہوگا ۔ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے یہ بھی واضح کیا کہ کسی مدرسے کے خلاف کارروائی ، کسی مولوی کو پکڑنے یا کسی مدرستے کو تالا لگانے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی ، جہاں دہشت گردی ہے وہاں جائو ، جہاں دہشت گردی کے مراکز یا اڈے ہیں ان کے خلاف کارروائی کرو، امن کے مراکز کو خطرات کے طور پر پیش نہ کرو اس سے مولوی اور مدرسے پر عوامی اعتماد میں حرف نہیں آسکتا ۔