یمن میں غذائی بحران ’انسانوں کا پیدا کردہ‘ ہے، اقوام متحدہ

بحران سے لاکھوں افراد بھوکے اور قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں، ایوک لوٹسم

جمعرات 3 اگست 2017 14:24

نیو یا رک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 03 اگست2017ء) اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ یمن میں پیدا کردہ غذائی بحران انسانوں کا پیدا کردہ ہے جس کے سبب لاکھوں افراد بھوکے اور قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں۔اقوام متحدہ کے ڈیولپمنٹ پروگرام کے سربراہ ایوک لوٹسما نے کہا کہ یہ بحران صرف کئی دہائیوں سے جاری غربت اور سرمایہ کاری کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ جنگی ہتھکنڈے کے طور پر کی جانے والی معاشی تنگی کی وجہ سے بھی پیدا ہوا۔

انہوں نے کہا کہ یمن میں جاری خانہ جنگی کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا اور ملک کی دو کروڑ 70 لاکھ آبادی میں سے 70 فیصد کو انسانی امداد کی شدید ضرورت ہے، 60 فیصد کو یہ نہیں معلوم کہ انہیں دوبارہ کھانا کب ملے گا اور 70لاکھ افراد قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں۔یمن میں جاری تنازع کے سبب مختلف قسم کی وبائیں بھی پھوٹ پڑی ہیں جہاں اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک چار لاکھ سے زائد افراد ہیضے کا شکار ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں گزشتہ چار ماہ کے دوران تقریباً دو ہزار افراد ہلاک ہوئے اور گزشتہ دو ہفتے کے دوران اس میں بے انتہا اضافہ ہو گیا ہے۔

(جاری ہے)

ایوک لوٹسما نے یمن کے دارالحکومت صنعا سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے صحافیوں سسے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ تقریباً 20لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جس کے سبب ان کے ہیضے کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور ہیضہ مزید غذائی قلت پیدا کرتا ہے، اقوام متحدہ کی بہترین کاوشوں کے باوجود ہمیں ہیضہ پھیلنے کا خدشہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ یمن کی 90فیصد غذا کا انحصار درآمدات پر ہے جو اس وقت بہت اہمیت کی حامل ہیں لیکن ملک کی موجودہ صورتحال میں غذا ملک کے اندر پہنچانا بہت مشکل ہے کیونکہ اس وقت بہت کم کمرشل درآمدات کرنے والے دستیاب ہیں۔

اقوام متحدہ کے کارکن نے مزید بتایا کہ غذائی قلت کی بڑی وجہ اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں، ملک میں کرنسی کی بھی کمی ہے، پہلے سے غربت کا شکار یمن کے عوام کی قوت خرید جنگ کے آغاز کے بعد مزید کم ہو گئی ہے۔یمن میں خانہ جنگی کا ا?غاز ستمبر 2014 میں اس وقت ہوا جب حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا میں داخل ہو کر عالمی سطح پر منظور شدہ صدر عبدالرب منصور ہادی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔

اس معاملے پر مارچ 2015 میں سعودی عرب کی زیر قیادت اور امریکی حمایت یافتہ اتحادی افواج نے حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا تھا اور دو سال سے جاری شورش میں سعودی اتحاد کے فضائی حملوں میں 6200 افراد کے ہلاک ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے، جبکہ یمن فورسز اور حوثی باغیوں کے درمیان جھڑپوں اور بم دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔گزشتہ دو سال سے یمن میں جاری شورش کے باعث لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق یمن کے شہریوں کو خوراک اور ادویات کی شدید کمی کا سامنا بھی ہے۔

متعلقہ عنوان :