سپریم کورٹ نے پانامہ پیپرزکیس میں وزیراعظم محمد نوازشریف کونا اہل قراردیدیا

وزیر اعظم محمد نوازشریف صادق اورامین نہیں رہے، وہ فوری طور پر اپنا عہدہ چھوڑدیں، الیکشن کمیشن ان کی مجلس شورٰی (پارلیمنٹ) کی رکنیت ختم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے، غلط بیانی کرنے اوراپنے اثاثے ظاہرنہ کرنے پروزیراعظم ، ان کے بیٹوں حسین نواز، حسن نواز، مریم صفد ر، کیپٹن (ر) صفد ر اور وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈارکیخلاف چھ ہفتوں میں ریفرنس دائر کرے، احتساب عدالتیں چھ ماہ میں ریفرنسز پرفیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی، صدرمملکت ملک میں جمہوری تسلسل کیلئے مناسب اقدامات اٹھانے کویقینی بنائیں، سپریم کورٹ کا ایک جج عدالتی فیصلہ پرعملدرآمد کی نگرانی کرے گا، جے آئی ٹی ارکان کی ملازمتوں کاتخفظ یقینی بنایا جائے اورمانیٹرنگ جج کی اجازت سے قبل ان کی پوسٹنگ، ٹرانسفر نہ کی جائے، عدالت

جمعہ 28 جولائی 2017 21:14

سپریم کورٹ نے پانامہ پیپرزکیس میں وزیراعظم محمد نوازشریف کونا اہل ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 جولائی2017ء) سپریم کورٹ نے پانامہ پیپرزکیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم محمد نوازشریف کونا اہل قراردیدیا ہے اورکہا ہے کہ محمد نوازشریف صادق اورامین نہیں رہے وہ فوری طور پر اپنا عہدہ چھوڑدیں اور الیکشن کمیشن ان کی مجلس شورٰی(پارلیمنٹ) کی رکنیت ختم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔ عدالت نے غلط بیانی کرنے اوراپنے اثاثے ظاہرنہ کرنے پروزیراعظم ، ان کے بیٹوں حسین نواز، حسن نواز، مریم صفد ر، کیپٹن (ر) صفد ر اور وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈارکیخلاف چھ ہفتوں میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ ریفرنس دائر کرنے کے بعد احتساب عدالتیں چھ ماہ میں ریفرنسز پرفیصلہ کرنے کی پابند ہوں گی جبکہ سپریم کورٹ کا ایک جج عدالتی فیصلہ پرعملدرآمد کی نگرانی کرے گا۔

(جاری ہے)

جمعہ کو پاناما لیکس کے حوالے سے محفوظ کیا گیا فیصلہ جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میںجسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے سنایا۔ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ یہ فیصلہ پانچ رکنی لارجربنچ کے 20 اپریل کے فیصلے کا تسلسل ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ کی وصولی کے بعد تین رکنی عملدرآمد بنچ نے پانچ روزہ سماعت کے بعد 21 جولائی کوفیصلہ محفوظ کیا تھا۔

عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم محمد نواز شریف کے حوالے سے کہا کہ کیس کی سماعت کے دوران اس امرکی تردید نہیں کی گئی کہ وزیراعظم محمد نوازشریف ایف زیڈ ای کیپیٹل کے بورڈ کے چیئرمین کے طورپرتنخواہ لینے کے مجاز تھے، اس لئے تنخواہ نہ لینے کی بات سے قابل وصول تنخواہ کی عدم وصولی کا جواز نہیں بنتا، اگر عدم وصولی کے باوجود قابل وصول تنخواہ ایک اثاثہ ہے تو وزیراعظم کوچاہیئے تھا کہ وہ 2013 ء کے الیکشن کیلئے اپنے کاغذات نامزدگی میں اسے ظاہر کرتے لیکن وہ ان اثاثوں کوظاہر نہ کرکے عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 12(ایف )کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے، انہوں نے الیکشن کمیشن میںجھوٹی ڈیکلریشن جمع کرائی جس سے وہ عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 12 اور آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت صادق اورامین نہیں رہے، جس کی روشنی میں نیب کوہدایت کی جاتی ہے کہ جے آٹی ٹی کی جانب سے جمع کردہ شہادتی مواد یا ایف آئی اے میں دستیاب شواہد، جوان اثاثوں سے بلاواسطہ یابالواسطہ طورپرمتعلق ہو، کی بنیاد پر ان کیخلاف چھ ہفتے میں اسلام آباد/ راولپنڈی کی احتساب عدالتوں میں ریفرنس دائر کئے جائیں۔

عدالت نے اپنے فیصلہ میں نیب کو یہ ہدایت بھی کی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف ، ان کے بیٹوں حسین نواز، حسن نواز، بیٹی مریم صفد راورکیپٹن صفدر کیخلاف لندن کے پارک لین میں واقع فلیٹ 16 ، 16 اے اور17اور17 اے کی ملکیت ظاہرنہ کئے جانے پرریفرنس دائرکئے جائیں۔ اس ضمن میں نیب جے آئی ٹی کی جانب سے جمع کردہ مواد کوبروئے کارلاسکتاہے۔ وزیراعظم نوازشریف، حسین نواز اورحسن نواز کیخلاف عزیزیہ سٹیل ملز اور ہل میٹل قائم کرنے پربھی ریفرنس دائرکئے جائیں۔

ان کیخلاف فلیگ شپ ، ہارٹ سٹون پراپرٹیز لمیٹڈ، کونٹ ایٹن پیلس کوے ہولڈنگ اور پیراگراف نمبر 9 میں درج دیگر کمپنیوں کے حوالے سے بھی ان کیخلاف ریفرنس دائرکئے جائیں۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کیخلاف آمدن اوراثاثوں میں عدم مطابقت کے حوالے سے ریفرنس دائرکیاجائے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں نیب کو مزید ہدایت کی کہ موسٰی غنی، کاشف قاضی، سعید احمد، شیخ سعید اورجاوید کیانی سمیت ان تمام افراد کیخلاف بھی ریفرنس دائرکئے جائیں جن کا وزیراعظم، ان کے بیٹوں حسین نواز ، حسن نواز ، مریم صفدر اور اسحاق ڈا ر کی جانب ان اثاثوں کے حصول کے حوالے سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ہو یا ان کے اثاثے آمدن سے زائد ہوں۔

نیب اس معاملے سے متعلق مزید اثاثے، جوظاہرنہیں کئے گئے ہیں، سامنے آنے کی صورت میں اضافی ریفرنس بھی دائر کرنے کامجاز ہوگا اور احتساب عدالت ان تمام ریفرنسوں کا چھ ماہ میں فیصلہ کرنے کا پابند ہو گا۔ تاہم اس دوران اگر عدالت کو مدعا علیہان یا کسی دوسرے فرد کی جانب سے جعلی دستاویز یا حلف نامہ موصول ہوتا ہے تو متعلقہ فرد یا افراد کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاسکے گی۔

عدالت نے قراردیا کہ وزیراعظم محمد نوازشریف کی جانب سے اپنے کاغذا ت نامزدگی میں دوبئی میں کیپیٹل ایف زیڈ ای ،جبل علی سے وصول نہ کئے گئے قابل وصول اثاثے ظاہرنہ کرنے اور الیکشن کمیشن میں جھوٹا حلف نامہ داخل کرنے پرصادق اورامین نہیں رہے، اس لئے وہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے اہل نہیں، الیکشن کمیشن فوری طورپران رکنیت ڈی نوٹیفائی کرے اوروہ وزیراعظم کا عہدہ چھوڑ دیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں صدرمملکت سے استدعا کی کہ ملک میں جمہوری تسلسل کیلئے مناسب اقدامات اٹھانے کویقینی بنایا جائے۔ پانچ رکنی لارجربنچ نے چیف جسٹس سے عدالتی فیصلے پر ا س کی روح کے مطابق عمل درآمد کیلئے ایک نگران جج مقررکرنے کی استدعا کرتے ہوئے جے آئی ٹی ارکان کے کام کی تعریف کی اور کہاکہ جے آئی ٹی ارکان کی ملازمتوں کاتخفظ یقینی بنایا جائے اورمانیٹرنگ جج کی اجازت سے قبل ان کی پوسٹنگ /ٹرانسفر نہ کی جائے۔ یاد رہے کہ یہ فیصلہ دوبار سنایا گیا۔ پہلے پانامہ لیکس کیس پر تین رکنی عملدرآمد بنچ کے سربراہ جسٹس اعجازافضل نے فیصلہ سنایا۔ ان کے بعد پانچ رکنی لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ دوبارہ پڑھ کرسنایا۔