پانامہ کیس کا انجام، نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے ، تاحیات نا اہل قرار دیا جاتاہے،سپریم کورٹ کا حکم

عدالت عظمی-ٰ کا نواز شریف ، مریم نواز ، حسین نواز ، حسن نواز ، کیپٹن صفدر ، اسحاق ڈار ، سمیت دیگر کیخلاف چھ ہفتوں میں راولپنڈی احتساب عدالت میں ریفرنسز دائر کرنے اور چھ ماہ میں فیصلہ دینے کا حکم وزیر اعظم نے اثاثے چھپائے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہل قراردیا جاتاہے، الیکشن کمیشن فوری ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے،پانچ رکنی لارجر بینچ کا متفقہ فیصلہ صدر مملکت جمہوریت کے تسلسل کیلئے فوری عدالتی حکم پر اطلاق یقینی بنانے کے لیے آئینی تقاضے پورے کریں، چیف جسٹس فیصلے کے نفاذ اور بعد ازاں احتساب عدالت کی جانب سے سماعتوں کے معائنہ اور نگرانی کے لیے سپریم کورٹ کے ایک جج کو نامزد کریں، عدالت کی استدعا جے آئی ٹی کے کام کی تعریف ،ممبران کی مدت ملازمت کو محفوظ بنانے کا حکم عدالتی فیصلہ 25صفحات پر مشتمل ہے، فیصلہ جسٹس اعجاز افضل خان نے پڑھ کر سنایا

جمعہ 28 جولائی 2017 19:03

پانامہ کیس کا انجام، نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے ، تاحیات نا اہل ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 28 جولائی2017ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیر اعظم نواز شریف کو صادق اور امین نہ ہونے پر تاحیات نا اہل قرار دیتے ہوئے ، نواز شریف ، مریم نواز ، حسین نواز ، حسن نواز ، کیپٹن صفدر ، اسحاق ڈار ، سمیت دیگر کیخلاف چھ ہفتوں میں راولپنڈی کی احتساب عدالت میں ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیدیا ہے ، عدالت عظمیٰ نے احتساب عدالت کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ ریفرنسز کا فیصلہ چھ ماہ میں کرے ،جبکہ عدالت نے قرار دیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے کپیٹل ایف زیڈ ای دبئی کو کاغدات نامزدگی میں ظاہر نہ کرکے اثاثے چھپائے ہیں جس کے باعث وہ صادق اور امین نہیں رہے ہیں، ر وپا ایکٹ کی سیکشن 12ٹو ایف 72اور99کی بنیاد پر غلط کاغذات نامزدگی جمع کرانے اور اثاثے چھپانے پر نااہل قرار دیا جاتا ہے ، وزیراعظم آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت صادق اور امین بھی نہیں رہے جس کے باعث وہ فوری طور پر مجلس شوریٰ(پارلیمنٹ ) کے رکن بھی نہیں رہے ہیں ، الیکشن کمیشن فوری طور پر ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے، عدالت نے صدر مملکت سے استدعا کی ہے کہ وہ جمہوریت کے تسلسل کیلئے فوری طور پر عدالتی حکم پر اطلاق یقینی بنانے کے لیے آئینی تقاضے پورے کریں، عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ نیب نواز شریف اور انکے بچوں کیخلاف 6 ہفتوں میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرتے ہوئے جے آئی ٹی ، نیب ، ایف آئی اے کے پاس موجود مواد اور ایم ایل اے سے حاصل ہونے والے مواد کومدنظر رکھے ،جبکہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ، مریم نواز، حسین نواز ، اور حسن نواز ور کیپٹن صفدر کیخلاف پہلا ریفرنس ہیون فیلڈ پراپرٹیز ،فلیٹ نمبر ، 16اے ،17اور17اے پارک لین لندن کے حوالے سے دائر کرے اور نیب اس جے آئی ٹی کی جانب سے اس حوالے سے اکھٹے کیے گئے مواد کو ملحوظ خاطر رکھے ، عدالتی فیصلے میں حکم دیا گیا ہے کہ نیب وزیراعظم اور انکے دونوں بیٹوں کیخلاف دوسرا ریفرنس عزیزیہ سٹیل مل اور ہل میٹل کمپنی کے حوالے سے دائر کرے ، جبکہ وزیراعظم ، اور انکے دونوں بیٹوں کیخلاف تیسرا ریفرنس فلیگ شپ انوسٹمنٹ لمیٹڈ ، ہارٹ سٹون ، کیو ہولڈنگ ،کیونٹ ایٹون ، کیونٹ ایٹون پلیس ون اور ٹو ،کیون سلون ، کوانٹ لمیڈڈ ، فلیگ شپ سکیورٹیز ، کیونٹ گلوسسٹر ، کیونٹ ، پیڈنگ ٹیون ،فلیگ شپ ڈولیپمنٹس ،الانا سروسز ، لین کین ایس اے ، چدرون ان کارپورشن ، اینسبیچر ،کومبر ، کپیٹل ایف زید ای (دبئی ) کے حوالے سے دائر کیا جائے ، عدالت نے اپنے فیصلے میں حکم دیا ہے کہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کیخلاف بھی آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ریفرنس دائر کیا جائے ، جبکہ پانچواں ریفرنس شیخ سعید ، موسیٰ غنی ، کاشف مسعود قاضی ، جاوید کیا نی ، اور سعید احمد کے وزیراعظم ، مریم ،حسن، حسین، اور اسحاق ڈار سے کنکشن اور انہیں آمدن سے زائد اثاثے بنانے کی بنیاد پر دائر کیا جائے عدالت نے کہا کہ نیب اگر ضروری سمجھے تو نئی انکشافات کی صورت میں ضمنی ریفرنسز دائر کر سکتا ہے، عدالت نے اپنے تحریری حکم نامے میں احتساب عدالت کو چھ ماہ میں ریفرنسز نمٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مدعلیہ یا کوئی بھی فریق اپنے حق میں کسی بھی قسم کی جعلی دستاویزات فراہم کی جاتی ہیں تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے ، پانامہ کیس کی سماعت کرنے والے بینچ نے اپنے فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستا ن سے استدعا کی ہے کہ اس فیصلے کے نفاذ اور بعد ازاں احتساب عدالت کی جانب سے کی جانے والی سماعتوں کے معائنہ اور نگرانی کے لیے سپریم کورٹ کے ایک جج کو نامزد کیا جائے ،عدالت نے اپنے فیصلے میں جے آئی ٹی کے کام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی کے کام کرتے ہوئے سراہتی ہے ،انہو ں نے احکامات کے مطابق تفصیلی اور جامع رپورٹ عدالت میں جمع کروائی ،عدالت نے جے آئی ٹی ممبران کی مدت ملازمت کو محفوظ بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کی اجازت کے بغیر جے آئی ٹی ممبران کے تبادلے و تعیناتی پر پابندی ہوگی ۔

(جاری ہے)

یا د رہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کیخلاف ، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان ، جماعت اسلامی اور شیخ رشید احمد خان کی درخواستوں پر سپریم کورٹ کے پانامہ عملدرآمد بنچ جو جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تھا کی جانب سے 21جولائی کو جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات کو پانچ دن سننے کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ جسٹس اعجاز افضل خان نے پڑھ کر سنایا جبکہ پانچوں ججوں کا متفقہ فیصلہ بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پڑھ کر سنایا ہے جو 25صفحات پر مشتمل ہے ، واضح رہے کے کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعیداورجسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بنچ 20اپریل تک کیس کی سماعت کرتا رہا ہے جبکہ 20اپریل کو عدالت کی جانب سے جاری عبوری حکم نامے میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیرعظم نواز شریف کو نااہل جبکہ دیگر تین ججوں نے تیرہ سوال اٹھاتے ہوئے انکے جوابات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کے حکم دیا تھا جس نے 60روز میں اپنا کام مکمل کر سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی تھی جس پر پانامہ عملدرآمد بنچ نے 21جولائی کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا ۔