پانامہ کیس کا کوئی بھی فیصلہ آنے کے بعد وزارت اور قومی اسمبلی کی رکنیت سمیت سیاست چھوڑنے کا بھی فیصلہ کر لیا تھا،چوہدری نثار علی خان

پریس کانفرنس وبالِ جان بن چکی تھی، زندگی کی مشکل پریس کانفرنس ہے سوالات کے جوابات نہیں دوں گا ،چند دنوں بعد میڈیا سے کھل کر بات کروں گا، وفاقی وزیر داخلہ پارٹی اور قیادت پر مشکل وقت ہے ایسے وقت میں پارٹی سے کیوں الگ ہونگا، کچھ لوگ اپنی سپیس چاہتے ہیں مگر میں کسی عہدے کا خواہشمند یا امیدوار نہیںہوں عزت عہدوں سے نہیں کردار سے آتی ہے ،سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام سیاسی پارٹیوں اور قوم کو قبول کرنا ہو گا ،ہماری پارٹی سے بہت سے لوگوں کو خدشات ہیں میں ان سے اتفاق کرتا ہوں ،پاکستان کے ارد گرد بہت گہرے بادل منڈلا رہے ہیں ایسے حالات میں قوم کو یکجا ہونے پڑے گا اگر ہم ہارے بھی تو دل بڑا کر کے قوم کو یکجا کریں، پریس کانفرنس سے خطاب

جمعرات 27 جولائی 2017 20:16

پانامہ کیس کا کوئی بھی فیصلہ آنے کے بعد وزارت اور قومی اسمبلی کی رکنیت ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جولائی2017ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سے پانامہ کیس کا کوئی بھی فیصلہ آنے کے بعد وزارت اور قومی اسمبلی کی رکنیت سمیت سیاست چھوڑنے کا بھی فیصلہ کر لیا تھا ۔ جمعرات کو پنجاب ہائوس اسلام آباد میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ میں نے سینکڑوں پریس کانفرنس کی ہیں لیکن یہ سب سے مشکل پریس کانفرنس ہے ، ،میڈیا کو شارٹ نوٹس پر طلب کیا ہے، سینئر پارٹی رہنماؤں کو بھی اس بارے میں اطلاع نہیں دی تھی، میاں شہباز شریف اور دیگر رفقاء نے کہا کہ ہم یہاں بیٹھے ہیں اور آپ پریس کانفرنس کر رہے ہیں، مگر میں نے کہا کہ یہ معاملہ چونکہ پریس کانفرنس سے شروع ہوا تھا، اس لئے اب یہ پریس کانفرنس ناگزیر ہو چکی ہے، میرے لئے یہ پریس کانفرنس وبالِ جان بن چکی تھی۔

(جاری ہے)

زندگی کی مشکل پریس کانفرنس ہے جس میں سوالات کے جوابات نہیں دوں گا اور چند دنوں بعد میڈیا سے کھل کر بات کروں گا۔انہوں نے کہا کہ چند دن پہلے میں نے پریس کانفرنس کا اعلان کیا تھا کیونکہ اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ کابینہ کا کلوز سیشن تھا جس میں صرف وزراء تھے اور سرکاری افسران نہیں تھے ۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران میں نے جو کچھ کہا تھا ان میں سے کچھ باتیں صحیح طریقے سے باہر گئیں جبکہ کچھ کا تاثر غلط دیا گیا ۔

میں کسی سے ناراض نہیں ہوں وزیرِ داخلہ نے کہا کہ میں اندر سے مشکلات اور سازشوں کا شکار رہا ہوں، میں ضرورت سے زیادہ منہ پر بات کرنے کا عادی تھا، مخالفین 1985ء سے مجھ پر ایک ہی الزام لگاتے آئے ہیں، میں نے گزشتہ پریس کانفرنس میں بڑا فیصلہ کر لیا تھا، وہ فیصلہ وہی تھا جو تجزیے کئے جا رہے تھے، پارٹی کے اندر مخالفین کے پاس میرے خلاف کچھ نہیں ہوتا،نواز شریف اور پارٹی کیلئے اپنی ذات ایک طرف رکھ کر خدمت کی ۔

پارٹی اور قیادت پر مشکل وقت ہے ایسے وقت میں پارٹی سے کیوں الگ ہونگا۔ انہوں نے کہا کہ 33 سال سے پارٹی کے ہر اجلاس میں شریک ہوتا رہا ہوں لیکن گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران اہم اجلاس میں بھی نہیں بلایا گیا اور میں بن بلائے کسی اجلاس میں نہیں جاتا ۔وزیر داخلہ نے کہا کہ میں نے تمام عمر نواز شریف کے سامنے سچ کہنے کی جسارت کی، سچ کتنا بھی کڑوا ہو نواز شریف کے سامنے کہتا تھا، مشکل ترین وقت آیا تو اندر سے سازش چلی، مجھے مشاورتی عمل سے الگ کر دیا گیا، ہر مقام سے میرے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا، 3 ماہ پہلے میاں صاحب کے سامنے غلطیوں کی نشاندہی کی، میاں صاحب سے پوچھا کہ غلطیوں کی نشاندہی کرتا رہوں یا نہیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں چودھری صاحب آپ کرتے رہیں، مجھے آپ کی باتیں بہت اچھی لگتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 1985 میں جو لوگ پارٹی بنانے میں نواز شریف کے ساتھ تھے ان میں سے میں ہی بچا ہوں باقی سب لوگ یا تو پارٹی چھوڑ کر چلے گئے یا دنیا چھوڑ گئے ۔ انہوں نے کہا کہ مخالفین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ چوہدری نثار پارٹی نہیں چھوڑ سکتا لیکن جب مشکل وقت آیا تو پھر سازش چلی اور مجھے مشاورتی عمل سے الگ کر دیا گیا کچھ لوگ دیکھ رہے تھے کہ جگہ خالی ہو جائے تو ہمارا راستہ بن جائے ۔

حکمران سے اصل وفاداری تو یہ کہے کہ انہیں حقیقت کے بارے میں بتایا جائے میں نے وزیراعظم سے کہا کہ آپ نے دوسروں کی باتیں کیوں سنیں آپ مجھے بلا کے پوچھ لیتے لیکن جب حالات نہیں سنبھلے تو ایک انتہائی فیصلہ کیا ۔چودھری نثار نے کہا کہ میں تین موضوعات پر بات کرنا چاہتا ہوں، ایک، مجھ پر فوج سے قربت کا الزام لگایا جاتا ہے، دوسرا میں ڈان لیکس پر بات کرنا چاہتا ہوں، تیسرا پارٹی میں کچھ لوگ میرے خلاف میاں صاحب کو شکایتیں لگاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے 33 سال اپنی ذات کو ایک ہی طرف رکھ کر ساری زندگی دائو پر لگائی اس لئے مشکل وقت میں کیوں پارٹی سے منہ موڑوں گا ۔ مجھے صرف تین میٹنگز میں بلایا گیا جن میں نیشنل سیکیورٹی اجلاس ، کابینہ اجلاس اور پارلیمانی پارٹی کے اجلاس شامل تھے پہلے دونوں اجلاسوں میں میں گیا جبکہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں عرصہ دراز سے نہیں گیا ۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ میں نے کوئی ٹرین مس نہیں کی میں کسی آوارہ ٹرین کا مسافر نہیں ہوں 33 سال سے اسی ٹرین کا سوار ہوں حالات کچھ بھی ہوں ٹرین نہیں بدلی شیخ رشید جیسے لوگ ٹرین بدلتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف ، اسحاق ڈار، شاہد خاقان عباسی ، خواجہ سعد رفیق بضد تھے کہ میں پریس کانفرنس نہ کروں مگر میں نے کہا کہ میں اعلان کر چکا ہوں دوستی کا مجھ پر بہت بوجھ ہے ۔

پیر کو جو پریس کانفرنس کرنا تھی تو ایک بڑا فیصلہ کر لیا تھا جو تجزیوں کے عین مطابق تھا جس شخص نے زندگی کے 33 سال پارٹی کو دیئے نواز شریف نے پارٹی کو اپنی محنت اور ثابت قدمی سے ثابت کیا اس میں چند اور دوست بھی شامل ہیں مجھے فخر ہی نہیں بلکہ اطمینان ہے کہ میں اگلی صفوں میں کھڑا ہونیوالا ہوں۔رانا تنویر آفتاب شیخ سردار مہتاب اور سرتاج عزیز اس وقت سر کردہ لیڈر نہیں تھے جبکہ میں پارٹی کی فرنٹ لائن پر تھا ۔

جس شخص نے 33 سال اس پارٹی کو دیئے وہ مشکل وقت میں کیسے ساتھ چھوڑ سکتا ہے ۔ میں مشکور ہوں میڈیا اور اپوزیشن رہنمائوں کا جنہوں نے یہ کہا ہے کہ نثار سے 100 اختلافات ہوں لیکن وہ پارٹی نہیں چھوڑے گا میرے لئے اس سے بڑا تغمہ اور اطمینان نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے میاں صاحب کو ہمیشہ صحیح مشورہ دیا یہ وفاداری نہیں کہ میں غلط کو غلط کہوں میں بہت گنہگار آدمی ہوں میں منافقت نہیں کر سکتا سیدھے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ہوں میں نے کابینہ میں کہا کہ مجھے وہ جگہ اور مقام پتہ ہے کہ کس نے کیا بات کی چودھری نثار نے کہا کہ 1999 ء میں کابینہ میں خوشامد پر خوشامد ہو رہی تھی، میں نے میاں صاحب کو کہا کہ خوشامد پر پابندی لگانی چاہئے اور اس کا آغاز کابینہ سے کریں ، اس بات پر خاموشی ہو گئی، جب حالات نہیں سنبھلے تو پھر بڑا فیصلہ کیا، میرا ارادہ تھا کہ میں ڈان لیکس کے حوالے سے بات کروں، ایک شخص کے مالی اور اخلاقی ایشوز ہیں، فوج سے قربت کے حوالے سے بات کرنا چاہتا تھا، ہمیشہ سول اور فوجی تعلقات میں توازن قائم کرنے کی کوشش کی، مجھ پر فوج سے قربت کے الزام 85ء سے لگ رہے ہیں، اپنے خاندان کے فوجی پس منظر پر فخر ہے۔

دادا سے لے کر میری کئی نسلیں فوج میں خدمات سر انجام دی رہی ہیں میرے والد اور بھائی فوج میں تھے ،میرے تین بہنوئی فوجی ہیں اس پر مجھے فخر ہے لیکن میں ایک سیاستدان ہوں اور میں نے کبھی سول بالادستی پر سمجھوتہ نہیں کیا ۔ جب 1991 ء میں جنرل بیگ گلف وار پر بیان دیا تو اس کا جواب میں نے دیا حالانکہ میں جنرل بیگ سے بہت اچھے تعلقات تھا ۔ میں نے وہ بیان اپنی وجہ سے نہیں نواز شریف حکومت کی وجہ سے دیا ۔

میرے تعلقات دو تین سال جنرل بیگ سے پھر بہتر نہیں رہے جب جنرل آصف نواز جنجوعہ نے حکومت کے مینڈیٹ کیخلاف ایم کیو ایم کیخلاف ایکشن لیا تو اس پر میں بولا یہ میری کوئی ذاتی بات نہیں تھی میں جنرل مشرف کو کرنل کے زمانے سے جانتا ہوں لیکن جب حکومت کو فارغ کیا گیا تو میری ان کے ساتھ دشمنی کی حد تک مخالفت ہوئی جنرل کیانی جنرل راحیل شریف اور جنرل موجود ہیں میں نے کبھی اپنی لیڈر شپ کیخلاف کبھی ایک لفظ تک نہیں کہا جنرل پاشا کے ساتھ تعلقات بہت اچھے تھے لیکن میں اس حد تک گیا کہ اگر ان کو توسیع ملی تو سپریم کورٹ جائوں گا ، جنرل مشرف کو کرنل بننے کے وقت سے جانتا تھا لیکن جب اس نے ہماری حکومت کا تختہ الٹا تب سے جنرل مشرف سے دشمنی کی حد تک مخالفت ہوئی۔

چودھری نثار نے کہا کہ ہمیشہ حکومت اور لیڈر شپ کی بات کو آگے رکھا، جنرل پاشا سے بہت قربت تھی، جنرل پاشا نے زیادہ سیاسی مداخلت کی تو شدید مخالفت کی، یہاں تک کہا کہ اگر جنرل پاشا کو دوبارہ توسیع ملی تو کورٹ جاؤں گا، سویلین اتھارٹی پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا، جنرل بیگ نے 91ء میں گلف وار پر حکومت کے مینڈیٹ کے خلاف بیان دیا تو انہیں سخت جواب دیا، میرے علاوہ کابینہ میں سے اور کوئی نہیں بولا، سیاست سے جی اچاٹ ہو گیا ہے میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ پانامہ کیس کا فیصلہ آتے ہی استعفیٰ دے دوں گا، سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آیا، استعفیٰ دوں گا، آئندہ الیکشن بھی نہیں لڑوں گا، سیاست میں لوگوں نے اپنے بت بنائے ہوئے ہیں، میں نے ہمیشہ عزت کے لئے سیاست کی ہے، آج گالم گلوچ کی سیاست ہو رہی ہے، سیاست بہتان اور مذاق بن گئی ہے، اللہ کرے فیصلہ وزیر اعظم کے حق میں آئے، وزیر اعظم انتہائی شریف النفس انسان ہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ نواز شریف کی شرافت سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، میں نے نواز شریف کا درد محسوس کیا ہے، فیصلہ ہمارے خلاف آیا تو چٹان کی طرح سب سے آگے ہوں گا۔ انہوں نے وزیر اعظم کو مشورہ دیتے ہوئے کہا، میاں صاحب فیصلہ حق میں آیا تو پاؤں زمین پر رکھئے گا، اگر فیصلہ خلاف آئے تو صبرو تحمل سے کام لیں، آپ کے اردگرد لوگ مخالفین کے سر قلم کرنے کو کہیں گے، پارٹی کو قائم دائم رکھیں، میں پچھلی صفوں میں آپ کے ساتھ ہوں گا، میاں صاحب آپ کو اس قوم نے بہت کچھ دیا ہے، آپ قوم کی خاطر عدالت کا فیصلہ قبول کریں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اپنی سپیس چاہتے ہیں مگر میں کسی عہدے کا خواہشمند یا امیدوار نہیںہوں عزت عہدوں سے نہیں کردار سے آتی ہے میں اپنے کردار کے حوالے سے بہت حساس ہوں۔سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام سیاسی پارٹیوں اور قوم کو قبول کرنا ہو گا ہماری پارٹی سے بہت سے لوگوں کو خدشات ہیں میں ان سے اتفاق کرتا ہوں انہوں نے کہا کہ ہمیں اداروں میں ہم آہنگی رکھنی ہے اس پر بات کر کے میں پہلے ہی نقصان اٹھا چکا ہوں ۔

بنگلہ دیش بننے کے بہت سے عوامل تھے مگر الزام جنرل یحییٰ پر آیا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک اس وقت شدید مشکلات سے دوچار ہے ہمیں گھیرے میں لیا جا رہا ہے وزیراعظم نے صرف اپنا نہیں ملک کا بھی تحفظ کرنا ہے دو سویلین اور دو فوج کے لوگوں کو پتہ ہے کہ ملک کن خطرات سے دو چار ہے ۔پاکستان کے ارد گرد بہت گہرے بادل منڈلا رہے ہیں ایسے حالات میں قوم کو یکجا ہونے پڑے گا اگر ہم ہارے بھی تو دل بڑا کر کے قوم کو یکجا کریں۔