پنجابی طالبان کے مضبوط ٹھکانے ختم کئے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ناممکن ہے، میاں افتخار حسین

نیشنل ایکشن پلان کے تمام 20نکات پر عمل کرنا ہو گا ،اگر میرے دس بیٹے بھی ہوتے تو میں اس دھرتی پر امن کے قیام کیلئے قربان کر دیتا، بیٹے کی ساتویں برسی کے موقع پر خطاب

منگل 25 جولائی 2017 22:26

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 25 جولائی2017ء) عوامی نیشنل پارٹی پختونخوا کے مرکزی جنرل سیکرٹری ، سابق وزیر اطلاعات اور راشد شہید فائونڈیشن کے چیئرمین میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے استاد پنجابی طالبان ہیں اور جب تک پنجاب میں ان کے مضبوط ٹھکانے اور اڈے ختم نہیں کئے جاتے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں، راشد شہید نے وطن کیلئے جام شہادت نوش کیا اور اُن کی شہادت کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائیگا ، افتخار خان کی رہائش گاہ پر شہید راشد حسین کی ساتویں برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر میرے دس بیٹے بھی ہوتے تو میں اس دھرتی پر امن کے قیام کیلئے قربان کر دیتا،برسی کی تقریب میں علاقے کی معززین نے سخت گرمی کے باوجودکثیر تعداد میں شرکت کی ،شہید میاں راشد حسین کی روح کے ایصال ثواب کے لیے ختم قرآن پاک کا اہتمام بھی کیا گیا اور بعد میں اُن کے درجات کی بلندی کیلئے خصوصی طور پر اجتماعی دُعا کی گئی۔

(جاری ہے)

برسی تقریب کے شرکاء نے اُن کی شہادت پر روشنی ڈالی۔اپنے خطاب میں میاں افتخار حسین نے مزیدکہا کہ دہشت گردی کے اس پر خار راستے میں لاکھوں شہداء کا خون بہہ چکا ہے اور میں خود اس درد سے گزر چکا ہوں اور مجھے علم ہے کہ ایسے موقع پر شہداء کی یاد کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے میاں افتخار حسین نے مزید کہا کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں دہشت گردی سوالیہ نشان ہے ،جس کا جواب صرف ھکومت دے سکتی ہے ،انہوں نے کہا کہ ہم نے بار ہا نیپ پر عمل درآمد کا کہا لیکن ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور نقصان ملک میں بسنے والے شہریوں کو ہوا ، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی جہاں کہیں بھی ہو ہم اس کے خلاف ہیں، ہم نے کئی بار اس بات کا اظہار کیا کہ وزیر ستان آپریشن کے نتیجے میں عارضی امن قائم ہوا ہے تاہم اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دائمی امن کے قیام کیلئے نیشنل ایکشن پلان کے تمام 20نکات پر عمل کرنا ہو گا ،انہوں نے کہا کہ ’’ نیپ‘‘ پر عمل درآمد میں وقفے اور بریک لگانے سے نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے اور اس میں تاخیر کے باعث دہشت گرد دوبارہ منظم ہوئے اور افغانستان اور پاکستان کے دونوں جانب حملے کر رہے ہیں، دہشت گرد ی کے خاتمے کیلئے پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی کا آغاز کیا جائے ورنہ دائمی امن کا خواب خواب ہی رہ جائے گا۔

انہوں نے کابل میں ہونے والے بم دھماکے کی بھی شدید مذمت کی اور کہا کہ شہید ہونے والوں کے لواحقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں، میاں افتخار حسین نے کہا کہ دہشت گردی کو شکست دینے کیلئے دونوں ملکوں کو دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات میں یہ بات طے پائی تھی کہ دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کاروائی کی جانی چاہئے اب یہ دونوں ممالک کا امتحان ہے کہ وہ اس پر کس طرح عمل درآمد یقینی بناتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کو اپنی پالیسیاں سپر پاور کی بجائے قومی مفاد میں بنانی چاہئیں۔

میاں افتخار حسین ؂ نے کہا کہ گزشتہ صوبائی حکومت میںبحیثیت وزیر اطلاعات میرے فعال کردار کی وجہ سے دہشتگردوں نے میرے بیٹے کو شہید کر دیا تھا جس پر اکثر لوگوں نے مجھ سے ایک ہی سوال کئی بار کیا تھا کہ آپ کا تو یہی اکلوتا بیٹا تھا اور ان کو بھی دہشتگردوں نے شہید کر دیا ہے اور میرا ہمیشہ یہی جواب ہوتا تھا کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ۔

یہ توصرف میرا ایک بیٹا تھا جس کو دہشتگردوں نے شہید کر دیا اگر میرے دس بیٹے بھی ہوتے تو اس دھرتی پر امن کے قیام کیلئے قربان کر دیتا۔انہوں نے کہا کہ میں باچا خان بابا کا پیروکار ہوں اور میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ میں دھرتی پر امن کے قیام کیلئے شہید ہو جاؤں ۔ اُنہوں نے کہا کہ راشد شہید فائونڈیشن سیاست سے بالا تر ہو کر لوگوں کی خدمت کر رہا ہے۔

قوم کے تمام بیٹے میرے اپنے بیٹے ہیں اور میں راشد شہید فائونڈیشن کے ذریعے ان تمام بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے تیار ہوں۔ اُنہوں نے کہا کہ راشد شہید فائونڈیشن مستقبل قریب میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے ایسے پروجیکٹ شروع کر رہے ہیں جس میں غریب طلبہ اور طالبات کی بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف سکولوں میں کمپیوٹر لیب مہیا کیے اور صحت کی بنیادی ضروریات کے حوالے سے کئی اقدامات کئے اور آئندہ بھی راشد شہید فائونڈیشن ایسے پروجیکٹس کیلئے پیش پیش رہے گی۔

اُنہوں نے کہا کہ فائونڈیشن کو مزید فعال بنانے کیلئے بھرپور کوششیں کی جائیں گی۔آخر میں انہوں نے کہا کہ میں بلا رنگ و نسل ،انسانیت کی خدمت کیلئے میدان میں ہوں اور راشد شہید فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام بننے والے اکیڈمی میں دہشتگردی کا شکار ہونے والوں کے بچے ، غریب ، یتیم اور معذور بچوں کو داخلہ دیا جائے گا، انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ جب تک زندگی ساتھ دے گی انسانیت کی خدمت کے جذبے کے ساتھ اپنے تئیں ہر ممکن کوششیں جاری رکھوں گا۔

متعلقہ عنوان :