ْپانی کی قلت والے علاقوں بالخصوص تھر میں آر او پلانٹس نصب کیے جارہے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ

ہماری ان کاوشوں پر تنقید کی جارہی ہے کیونکہ پلانٹس اپنی گنجائش کے مطابق کام نہیں کررہے ہیں اور اس طرح سے ہماری کاوشوں پر پانی پھرجاتا ہے

پیر 24 جولائی 2017 22:12

ْپانی کی قلت والے علاقوں بالخصوص تھر میں آر او پلانٹس نصب کیے جارہے ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 جولائی2017ء) وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ پانی کی قلت والے علاقوں بالخصوص تھر میں جہاں پر پانی کی سطح بہت نیچے ہے اور ٹی ڈی ایس کی شرح بہت زیادہ ہے وہاں پر آر او پلانٹس نصب کیے جارہے ہیں تاکہ پینے کے پانی کی فراہمی کو ممکن بنایا جاسکے مگر ہماری ان کاوشوں پر تنقید کی جارہی ہے کیونکہ پلانٹس اپنی گنجائش کے مطابق کام نہیں کررہے ہیں اور اس طرح سے ہماری کاوشوں پر پانی پھرجاتا ہے۔

انہوں نے یہ بات وزیر اعلی ہائوس میں ریورس اوسموس (آر او) پلانٹس کی تنصیب اور انہیں سولر انرجی پر منتقل کرنے کے حوالے سے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی ۔انہوں نے کہا کہ ان کے پاس رپورٹس ہیں کہ چند پلانٹس کام کرنے میں ناکام رہے ہیں اور چند کو گنجائش کے مسائل کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ان تمام مسائل کو ٹیکنیکل اور سائٹیفک طریقوں سے حل کرنا ہے ۔

سیکریٹری محکمہ اسپیشل انیشیٹیو زاعجاز علی خان نے پریزنٹیشن دیتے ہوئے بتایا کہ پہلے مرحلے میں 2015-2012 کے دوران 2.44بلین روپے کی لاگت سے 500پلانٹس لگائے گئے ان 500پلانٹس میں سے 393آپریشنل ہیں اور 1.63ملین لوگوں کو پانی فراہم کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب تک 68آر او پلانٹس کو سولر انرجی پر منتقل کیا جا چکا ہے جبکہ دیگر پر کام جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں 4بلین روپے کی لاگت سے 750آر او پلانٹس نصب کیے جارہے ہیں ۔

ان میں سے 531آر او پلانٹس نصب ہوچکے ہیں اور ان میں سے 379فنکشنل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 135پلانٹس کی سولر انرجی پر منتقلی جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ یہ کہنا چا ہ رہے ہیں کہ 17مزید آر او پلانٹس فنکشنل ہوجائیں گے اگر ان کی بورنگ مزید گہرائی تک کر دی جائے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ تیسرے مرحلے میں 750آر او پلانٹس کی تنصیب کا کام 2014میں شروع ہوا جس پر لاگت کا تخمینہ 5.49 بلین روپے ہے اور یہ شیڈول کے مطابق 2018 میں مکمل ہوگا۔

اب تک 525آر او پلانٹس نصب کیے جا چکے ہیں جس میں سے 430فنکشنل ہیں اور 27آر او پلانٹس کو سولر انرجی پر منتقلی کا کام جاری ہے ۔ واضح رہے کہ پہلے اور دوسرے مرحلے میں 1050آر او پلانٹس سولر انرجی پر منتقل کیے جارہے ہیں اور اب تک 600یونٹس کا کام مکمل ہوچکا ہے۔ منوڑہ آر او (ڈیسیلینیشن)پلانٹ 427ملین روپے سے شروع کیاگیا ہے جس پر کام جاری ہے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ تیسرے مرحلے میں 750پلانٹس لگائے جارہے ہیں جس میں سے تھر پارکر مٹھی میں145یونٹس ،اسلام کوٹ میں 136،چھا چھرو میں 131،ڈاھلی میں 129،ڈپلو میں 71 اور ننگر پارکر میں 95 یونٹس ہیں۔

707آر او پلانٹس میں سے 550نصب ہوچکے ہیں جس میں سے مٹھی میں125 فنکشنل ہیں،چھاچھرو میں 68،ڈاھلی میں 50،ڈپلو میں 42 اور ننگر پارکر میں 37ہیں۔اس پر وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ 277آر او پلانٹس تھر پارکر میں غیر فعال ہیں، جس پر انہوں نے سیکریٹری سے کہا کہ وہ اس حوالے سے کیا وجوہات ہیں تفصیلی رپورٹ انہیں پیش کریں۔سندھ کول اتھارٹی (ایس سی ای)اجلاس کو بتایا گیا کہ اس وقت 118آر او پلانٹس میں سے 107ضلع تھرپارکر ، عمر کوٹ ، بدین ، ٹھٹھہ اور سجاول میں آپریشنل ہیں۔

11مزید آر او پلانٹس کی تنصیب جاری ہے ۔پلانٹس کی گنجائش 11،580،000یو ایس جی پی ڈی ہے اور اس سے 122489آبادی مستفید ہوگی۔محکمہ آبپاشی: سیکریٹری آبپاشی سے یہ جمال شاہ نے اجلاس کو بتایا کہ ان کے محکمے نیجام شورو اور دادو اضلاع کے 23دیہاتوں میں 23آر او پلانٹس نصب کیے ہیں جس پر 234.574ملین روپے لاگت آئی ہے اور سب کے سب فنکشنل ہیں اور تمام پلانٹس سولر سسٹم پر ہیں۔

پی ایچ ای اینڈ آر ڈی ڈی : سیکریٹری پبلک ہیلتھ انجینئرنگ اینڈ رولر ڈولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ (پی ایچ ای اینڈ آر ڈی ڈی) تمیز الدین کھیڑو نے وزیر اعلی سندھ کو پریزنٹیشن دیتے ہوئے کہا کہ ان کے محکمے نے 9مختلف اضلاع میں 49آر او پلانٹس نصب کیے ہیں جس میں سے 41فنکشنل ہیں اور 8پاور کنیکشن نہ ہونے کی وجہ سے غیر فعال ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روہڑی میں((یونٹس)،پنوعاقل میں 3یونٹس اور ٹنڈو الہ یار میں (یونٹ غیر فعال ہے کیونکہ سیپکو سے ان کے بجلی کے کنیکشن مطلوب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سیپکو کوان کے پاور کنیکشن کے لیے ڈیمانڈ نوٹ بھی ادا کردیئے ہیں اور جیسے ہی ان کے پاور کنیکشن نصب ہونگے انہیں بھی فعال کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک جاتی کے آر او پلانٹ کا تعلق ہے تو وہ گرائونڈ واٹر کیمسٹری یعنی ٹی ڈی ایس کی مد میں بہت بڑے پیمانے پر ویری ایشن کے باعث غیر فعال ہے ۔ اس پر وزیر اعلی سندھ نے انہیں ہدایت کی کہ وہ اسے فنکشنل بنانے کے لیے ضروری اقدامات کریں اور انہیں رپورٹ پیش کریں ۔

محکمہ لائیو اسٹاک اینڈ فشریز:سیکریٹری لائیو اسٹاک اینڈ فشریز غلام حسین میمن نے کہا کہ ان کے محکمے نے ٹھٹھہ اور سجاول کے مختلف دیہاتوں میں 7 آر او پلانٹس نصب کیے ہیں جس پر 524.169ملین روپے لاگت آئی ہے ۔وزیر لائیو اسٹاک محمد علی ملکانی نے کہا کہ تقریبا تمام آر اوپلانٹس اپنی گنجائش کے مطابق فنکشنل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے کے مطابق کنٹریکٹر نے پی او ایل کے بلز ،مینٹینس کے وائوچر،لاگ بک اور ان کے کلیمز کے مطابق فراہم کیے جانے والے پانی کی مقدار دیئے ہیں مگر ابھی تک ان کی ادائیگی نہیں ہوئی ہے ۔

اس پر وزیر اعلی سندھ نے محکمہ لائیو اسٹاک کو ہدایت کی کہ او اینڈایم لاگت کی میٹر ریڈنگ کی تصدیق ، پی او ایل بلوں اور فراہم کردہ پانی کی مقدار کو دیکھتے ہوئے ادائیگی ہونی چاہیے۔وزیرا علی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ انہیں شکایات ملی ہیں کہ پلانٹس اپنی گنجائش کے مطابق کام نہیں کررہے ہیں اور زیادہ تر کنٹریکٹرز پلانٹس کی گنجائش کی بنیاد پر اپنے بلوں کا کلیم کررہے ہیں بجائے اس کے کہ وہ علاقے میں فراہم کیے جانے والے پانی کی مقدار کے کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے اور انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایسے کیسز پائے گئے تو وہ ان کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔ سیکریٹری خصوصی ترغیبات نے کہا کہ انہوں نے آر او پلانٹس کی مینٹینس اور آپریشن کے لیے این آئی ٹی طلب کیے ہیں اس پر وزیر اعلی سندھ نے انہیں ہدایت کی کہ وہ اچھے کنٹریکٹرز تلاش کریں نہیں تو محکمے کو چاہیے کہ وہ آر او پلانٹس کی دیکھ بھال اور آپریشن کے لیے اپنے اسٹاف کو تربیت فراہم کریں ۔

انہوں نے سیکریٹری اسپیشل انیشیٹیوز اعجاز علی خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جو کہ آر او پلانٹس کی انسٹالیشن میں مصروف دیگر محکموں کے ساتھ اجلاس منعقد کریں گے اور صوبے کے مختلف اضلاع میں نصب آر او پلانٹس کو چلانے کے لیے سفارشات مرتب کریں گے۔انہوں نے کہا کہ میں کسی عذر یا بہانے کے بجائے میسر آپریشن چاہتاہوں انہوں نے کمیٹی کو ہدایت کی کہ وہ 3دن کے اندر اپنی رپورٹ تیار کریں۔

متعلقہ عنوان :